Urdu News

پاکستانی جامعات میں طالبات کا جنسی استحصال

آفتاب سکندر

آفتاب سکندر

اقبالیات میں سائنس ڈھونڈنے والوں اخلاقیات میں خود کو ڈھونڈو

ہمیں تو مارنے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو نظامِ تعلیم جامعات میں رائج ہے وہ نفسیاتی مریض بناکر پیدا کرتا ہے۔ وہ نظامِ تعلیم اول و آخر یہی سکھاتا ہے کہ اتباع اپنے پروفیسر کی کرنی ہے اسی میں عافیت ہے وگرنہ تمھیں نہ ڈگری ملے گی اور نہ تمھارا مستقبل محفوظ ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ورطہ حیرت میں ڈال کر انگشتِ بدنداں کردیں۔ نہیں بالکل بھی نہیں، کیونکہ جب ہم دودھ کی رکھوالی پر بلی کو بٹھائیں گے تو ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔

آپ تعلیم کے قواعد دیکھیں وہ پروفیسر کی پیروی میں ہی پیروزی دکھاتا ہے

استاد طرح کامیاب کس نے ہونا ہے۔ ظاہر بات ہے ثنا گر اور خوشآمدی طالب علم نے۔ہماری بقا ہے ہی اسی میں کہ ہم اس سمیسٹر سسٹم کی لعنت سے جان چھڑوائیں اور کوئی ایسا طریقہ کار وضع کریں جس میں  ممتحن کی رسائی طلبا تک نہ ہو۔یہی بہترین طریقہ کار ہے وگرنہ اچھے گریڈز کے لیے طالبات کا جنسی استحصال ہوتا رہے گا یہی نہیں ذہنی استحصال بھی بچوں کا ہوتا رہے گا۔ سائنس کی جامعات سائنس دان پیدا کرنے کی بجائے نفسیاتی مریض پیدا کرتی رہیں گی۔

کل ہی نادیہ اشرف نامی پی ایچ ڈی اسکالر کی اَتم گھات کی خبر زینتِ دید و رصد ہوئی جو کہ آزردگی کا باعث تھی مگر اس خبر نے مجھے پروفیسر اقبال چودھری پر برافروختہ و برانگیختہ کرنے کی بجائے اس نظامِ تعلیم پر آزردہ و الف کیا کیونکہ اصل قصور تو امتحانی نظام کا ہےجو دودھ کی رکھوالی پر بلی کو بٹھاتا ہے۔

ہم ایک اقبال چودھری کو سولی پر لٹکادیں گے تو کیا ہوا پھر کوئی آجائے گا کیونکہ یہ گٹھن زدہ معاشرہ ہے۔

اس امتحانی نظام میں انتہا کے سقم موجود ہیں۔ یہاں بات محض جنسی استحصال کی نہیں رہ جاتی یہاں تو ذہنی استحصال بھی ہوتا ہے۔ایک جنسی استحصال کا واقعہ کی وڈیو وائرل ہوئی تھی دو سال قبل جس میں بھکر کیمپس کے میتھ ڈیپارٹمنٹ کے سرپرست کا اسکینڈل سامنے آیا تھا جس میں وہ لڑکی سے جسمانی تعلق اور اطمینان مانگ رہے تھے اور سائز وغیرہ پوچھنے کے پیغامات عُریاں کئے گئے تھے پھر یوں ہوا کہ تحقیقات ہوئیں تو قصور وار دونوں حضرات تھے گریڈز اور مارکس کے لیے ڈھیلی پڑگئی تھی موصوفہ۔موصوف نے پرجہ جات دکھلائے تو تھے کچھ مدد کی مگر اپنا حصہ مکمل نہ ملنے پر امداد سے فرار حاصل کی تو معاملہ بگڑ گیا۔ جب یہ معاملہ چل رہا تھا تو طلبا پروفیسر کے حق میں دلائل دیتے تھے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر، مگر وہ مخصوص طلبا اُسی جامعہ کے تھے جو اپنے مارکس اور گریڈز کی فکر امتحانی نظام سے متاثر ہو کر خوشامد کررہے تھے۔ عدالتی فیصلے نے دونوں فاعل، مفعول، موصوف، موصوفہ یا استاد شاگرد کو جامعہ سے فارغ کیا تھا۔ بات پھر وہیں پر آجاتی ہے کہ دودھ کی رکھوالی پر بلی بٹھائی ہے تو پھر یہ تو ہوگا۔ ایسے معاملات میں فریقین کا اتنا زیادہ قصور نہیں ہوتا کیونکہ مثبت، منفی چارج نے ایک دوسرے کو کشش تو کرنا ہے۔ آپ کو گریڈز، مارکس چاہیے۔ جب کہ پروفیسر بے چارے کو تعلیم نے کہاں بدلا ہونا ہے اُس نے اپنا کام نکالنا ہے، گومل جامعہ میں شعبہ اسلامیات کے سرپرست ماشاءاللہ سے سنتِ رسول سفید کئے ہوئے آخری عمر میں بے عزت ہو کر رہے ساتھ اپنے ساتھیوں کے کرتوت بھی طشتِ از بام کروا بیٹھے۔ جامعہ بلوچستان میں جامعہ کے وائس چانسلر تک ملوث نکلے۔ا سکینڈلز کی تو بہتات ہے اسلام آباد جیسے متمدن شہر جامعہ قائداعظم ہو یا پسماندہ ترین علاقہ میانوالی کی جامعہ ہو اسکینڈلز سامنے آئے ہیں۔ مطلب اس بہتی گنگا سے اکتسابِ فیض کرنے والے علاقائی امتیاز کے حامل نہیں ہیں۔

میں جنسی استحصال پر قلمبند کروں تو بھی واقعات کی بہتات ہے پوری کتاب لکھ ڈالوں۔ پھر ذہنی استحصال کی طرف آؤں تو بھی کتاب ہی قلمبند کی جاسکتی ہے مگر میں صرف مضمون ہی قلمبند کرنے کی پوزیشن میں ہوں اس لئے فرداً فرداً ذکر کررہا ہوں۔ لاہور میں جنسی استحصال کا سبب بننے والی طالبات کا کیس اُٹھا کر دیکھ لیں جو کہ اسکول کا تھا یا پھر وہ شعبہ انگریزی کے پروفیسر کے اَتم گھات پہ حرماں زدہ ہوں جو بہتان و افترا کی اذیت کے سامنے ڈھیر ہو گئے میں جب یہ دیکھتا ہوں نا کہ پروفیسر پر افترا کیا باندھا گیا اس کی زوجہ محترمہ سے لے کر والدہ ماجدہ تک منہ موڑ گئی یوں پروفیسر نے جان کی بازی ہار کر اپنے آپ کا بے گناہ ہونا ثابت کیا اس پر کسی پاکستانی ڈرامہ نگار کا لکھا گیا ڈائیلاگ جو جاوید شیخ صاحب بولتے تھے کہ

’’ہمارے معاشرے میں بدکردار کا لفظ فقط عورت کے لیے استعمال ہوتا ہے‘‘

جی کرتا ہے کہ ایسے ڈرامہ نگار کی تواضع جوتے کے ساتھ کرتے ہوئے منہ لال کردوں،

اور پھولوں کے ہار ڈالوں بالی ووڈ کی فلم’’ اعتراض‘‘ کے لکھاری پر جس کا ڈائیلاگ کرینہ کپور بولتی ہیں کہ’’کوئی لڑکی لڑکے کو تھپڑ مارے تو ہم لڑکے کو قصور وار سمجھتے ہیں جب کہ لڑکا لڑکی پر ہاتھ اُٹھائے تو بھی لڑکے کو ظالم جس پر مجھے اعتراض ہے‘‘۔

میں اس کالم، تحریر میں کوئی ایسی ویسی فضول گوئی کی طرف نہیں جانے والا بس جامعات میں ہونے والے اس امتحانی نظام کی روک تھام چاہتا ہوں جس سے طلبا و طالبات کا استحصال ہورہا ہے۔

Recommended