اختر جہانوی
گزشتہ دنوں مورخہ 13/مئی 2023 کو مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی کے شعبۂ امتحانات کی طرف سے امتحانی فارم کی ہارڈ کاپیوں کی حوالگی کی غرض سے عالم وفاضل معیار کے جملہ مدارس کوایک ہی دن طلب کیا گیا تھا ، ہرچند کہ یونیورسٹی کی بدنام زمانہ،پریشان کن ،اورمشہور بدانتظامی کے سابقہ تجربے کی روشنی میں میں نے اپنے کلرک کو ہدایت دے رکھی تھی کہ فارم کی حوالگی سے متعلق لکھنے پڑھنے کاچھوٹے سے چھوٹا کام بھی اپنے دفترسے مکمل کرکے یونیورسٹی پہنچیں،اور باقی ما ندہ کوئی بھی کام یونیورسٹی کے لیے ہرگز نہ چھوڑیں،تاکہ وہاں پہنچتے ہی بلاتاخیر فارم حوالگی کاکام انجام دے کر فارغ ہوسکیں ،اوریونیورسٹی کے گردآلود ننگے وگندے فرش پربیٹھ کرکام کرنے کی اہانت سے محفوظ رہ سکیں،اس لیے کہ یونیورسٹی کے اپنی عمارت میں شفٹ ہونے کے قابل ذکر عرصہ گزرجانے کے بعدبھی باربار کی شکایت ویاددہانی کے باوجود بھی یونیورسٹی کا موجودہ بے غیرت ، بدلحاظ اوربے ایمان انتظامیہ، دفتری امور کے تحت باہرسے آنے والے مہمانوں کے لیے اٹھنے بیٹھنے کے نام پرمطلق کوئی انتظام نہیں کرسکا ہے ۔
بہرحال اپنی جانب سے ہوم ورک مکمل کرلیاگیاتھا،مگربالائے ستم یہ کہ بدنظمی کے ماحول میں یونیورسٹی نے لازمی سہولتوں کی فراہمی کے بغیر ایک ہی تاریخ میں معتدبہ مدارس سے جم غفیر کوبلانے کی حماقت کاارتکاب کرلیاتھا ،اوراتنی بڑی تعدادمیں فارم کی وصولی کے لیے افرادکی معقول تعداد بھی مہیا نہیں کی گئی تھی ،جس کےسبب افراتفری میں لوگوں کااچھاخاصاوقت صرف ہورہاتھا ، اوراس دورانیے میں مدارس کے اساتذہ ،علما وفضلایاتوبے ہنگم طورپرکھڑے کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے ، یاجیسے تیسے، جہاں تہاں آوارہ جانوروں کی طرح ذلت آمیز اندازمیں اپنے جوتے چپلوں پر بیٹھنے پرمجبور تھے ، انتظامی بیہودگی ونالائقی کے شرمناک منظرنامے کااندازہ اس سے لگائیے کہ ایک کرسی پرنظرپڑتے ہی ایک معزز پرنسپل صاحب کومیں نے بٹھایا تو استقبالیہ کاجاہل عملہ آن سے کرسی چھین کربے شرمی کے ساتھ خودبیٹھ گیا ، اس زیادتی ودھاندلی سے پیمانۂ صبرچھلک پڑا،اورچندغیورحضرات صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے وی سی دفترکوگھیرنے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھے ،آوازیں بلند ہونے لگیں ، ماحول میں شوراورارتعاش کو محسوس کرتے ہوے وی سی نے صورت حال کو کنٹرول کرنے اورمسائل ومعاملات کوسمجھنے اورحل کرنے کے لیے ناظم امتحانات کو بھیجا، مگرشایدعقل عام اور اخلاقی امورمیں خط ناداری سے نیچے کی سطح پر زندگی بسر کرنے والے یونیورسٹی کے ذیلی افسران اورعزت مآبوں پر سے چونکہ اعتماداٹھ چکاتھا ،اس لیے اساتذہ ذیلی افسران کی سننے اور ماننے کے موڈ میں نہیں تھے ، اوراتمام حجت کے طورپر ‘عزت مآب’ وی سی صاحب سے ملاقات پرمصرتھے ۔
صورت حال کی نزاکت کے پیش نظرمذکورہ افسران کی طرف سے سردست ناکافی طورپرچندکرسیاں ‘ویٹنگ ہال’میں بھیجوانے کی اطلاع دی گئی ، اور امتحانی فارم کوتیزرفتآری کے ساتھ سرسری طورپر ریسیونگ دیےبغیربعجلت ریسیوکرکے پیش آمدہ صورت حال سے نجات حاصل کرنے کی ترکیب نکالی گئی ۔
احباب بخوبی جانتے ہیں کہ ایک دہائی قبل عالم وفاضل کے امتحانات بہاراسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے وابستہ تھے ، مگر چونکہ تعلیم اور امتحان کے معاصرپیٹرن میں اصولی طورپر گریجویشن اور پی ،جی، سطح کے امتحانات کسی یونیورسٹی ہی کے زیراہتمام لیے جاتے ہیں،اوراستثنائی طورپربدرجہ مجبوری مدرسہ بورڈ کو عالم وفاضل کے امتحانات لینے کا اعزاز حاصل تھا ، لہذاعالم وفاضل درجات کو میں اسٹریم سے جوڑنے ،اورمعاصرتعلیمی وامتحانی روایت سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے،عربی وفارسی زبان کے فروغ وارتقاکامنصوبہ منسلک کرتے ہوے وسیع تروزن کے ساتھ مولانامظہرالحق عربی و فارسی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایاگیا ، یعنی یونیورسٹی کے قیام کا محرک اور بنیادی مقصد عالم وفاضل کی تعلیم وامتحان ہے ،اوریونیورسٹی کاوجودہی عالم وفاضل شعبے کے نطفے کی رہین منت ہے،مگرمتذکرہ یونیورسٹی کی احسان فراموشی ومحسن کشی دیکھیے کہ عالم وفاضل اوراس کے جملہ متعلقات کے تعلق سے اس کا رویہ افسوس ناک ہی نہیں بلکہ اس درجہ متعصبانہ وقاتلانہ محسوس ہوتاہے کہ جیسے دنیامیں رائج معروف ، اورلازمی اخلاقیات کااسے کوئی اتہ پتہ نہ ہو ، پریشان کن اوربے ترتیب اکیڈمک اعلانات وہدایات کے ساتھ ظاہری رکھ رکھاؤ میں بھی اشتعال انگیز پھوہڑپن کاثبوت پیش کررہی ہے، اوریہ ستم رانی اس کے باوجود ہے کہ فیس کے نام پر ہمارے بچوں سے اچھی خاصی رقم وصول کی جاتی ہے ، حکومت کی عنایت سے اپنی زمین پر پرشکوہ اوردلکش ودیدہ زیب عمارت تومل گئی ہے ، مگر لگتاہے کہ اس گلستاں کی نگہبانی ایسے بدمذاق ہاتھوں میں دے دی گئی ہے کہ ‘بندرکے ہاتھوں میں ناریل ‘کامحاورہ اپنی افادیت مستحکم کرنے لگا ہے ۔
دین ودانش کے اس چمن میں زاغ وزغن نے بسیراجماکرانڈیامیں اپنی نوعیت کی واحد دانشگاہ کی شبیہ کومسخ اوربدنام کررہے ہیں،گزشتہ چندمہینوں کے اندر یونیورسٹی کے بے ہنگم فیصلے ،اعلانات وانتظامات ،اورسفرکے دوران ہونے والے تلخ مشاہدات و تجربات نے مجھے بادل ناخواستہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے پرمجبورکیاہے ، اس لیے پھرکہناپڑرہاہے ۔
اس ناز سے ،انداز سے ، تم ہاے چلوہو
روزایک’’غزل ‘‘ہم سے کہلوانے چلوہو