Urdu News

شہیدِ انسانیت سلمان تاثیر

آفتاب سکندر

آفتاب سکندر

فطرت بڑی بے رحم ہے۔ وہ اپنا انتقام ضرور لیتی ہے۔جس علامہ اقبال نے ترکھانوں کے مُنڈے والی بات سے مذہبی کارڈ کھیلا (فرزند اقبال کا بھی یہی موقف ہے) اسی کے بیٹے نے مذہبی شدت کے خوف سے اپنی رائے بیان کرنے سے گریز کیا۔

جس اے ڈی تاثیر نے غازی علم دین تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اسی کے فرزند کو مرتد سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔ فطرت بڑی بے رحم منصف ہے انتقام لینے میں عار محسوس نہیں کرتی۔

31مئی 1944 عیسوی کو برطانوی سامراج کے دور میں شملہ بھارت میں ایم ڈی تاثیر اور بلقیس (نوزائیدہ مسلم برطانوی خاتون) کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔

سلمان تاثیر کی عمر جب چھ سال تھی تب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ سلمان تاثیر کی دو بہنیں بھی تھیں۔انہوں نے انتہائی مفلسی کے ایام میں زندگی گزاری۔

تاثیر نواز شریف کے ہم جماعت بھی رہے۔ تاثیر نے لندن سے چارٹر اکاؤنٹنٹ کی سند حاصل کی۔

زمانہ طالب علمی سے ہی سلمان تاثیر سیاسی رکن کے طور پر متحرک ہو گئے۔ 60 کی دہائی سے ہی متحرک رہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دورانِ قید بھرپور مذمت کرتے ہوئے متحرک رہے۔

بعدازاں بھٹو کی پھانسی پر ان کی سوانح حیات لکھی۔ بھٹو کی سیاسی وارث بینظیر بھٹو کے منجھے ہوئے کارکن رہے۔

1988 عیسوی کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ لاہور سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اگلے انتخابات میں بطور رکن قومی اسمبلی شریک ہوئے مگر کامیاب نہیں ہو پائے۔ 2008 عیسوی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں بطور گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے حلف اٹھایا۔

سلمان تاثیر کامیاب سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب بزنس مین تھے۔ چارٹر اکاؤنٹنٹ کی ڈگری فضول میں نہیں لی۔ اس تعلیم کا کاروباری فن میں مظاہرہ کرکے بھی دکھایا۔

فیض احمد فیض سلمان تاثیر کے خالوں زاد تھے۔ سلمان تاثیر خود بھی باذوق آدمی تھے

سلمان تاثیر نے آسیہ مسیح کے لیے مسیحا بننے کا فیصلہ کیا اور یہی فیصلہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ آپ نے بیباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا موقف کھل کر سامنے رکھا۔

توہینِ مذہب کے قانون کی آڑ میں مظلوم اقلیتی برادری کے افراد کا سہارا بننے کے لیے اپنی جان تک پیش کر دی۔ ایک میڈیا چینل والے دورانِ انٹرویو آپ سے استفسار کیا کہ آپ کو ڈر نہیں لگتا۔ قتل کردیئے جائیں گے۔

اس کے جواب میں آپ نے فیض احمد فیض کی یہ نظم پڑھی تھی

آج بازار میں پابجولاں چلو

چشمِ نم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو

دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

حاکم شہر بھی ، مجمعِ عام بھی

تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی

صبحِ ناشاد بھی ، روزِ ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے

دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رختِ دل باندھ لو دل فگاروں چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو

سلمان تاثیر خاصے منجھے ہوئے بیباک، نڈر اور ذہین انسان تھے۔ واحد سیاست دان جس نے چیلنج کرکے جیو نیوز کے شو ایک دن جیو کے ساتھ میں کہا تھا کہ آپ میری کرپشن ثابت کردیں۔ میں نے کاروباری مہارت سے دولت کمائی ہے۔ ایک سلجھے ہوئے، پڑھے لکھے گھر کے چراغ تھے۔

اس معاملے میں خندہ پیشانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ کو 4 جنوری 2011 عیسوی کو آپ کے محافظ نے 27 گولیاں مار کر شہید کردیا۔

کالم منیر نیازی کی اس نظم پر کروں گا جو آپ نے نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پڑھی تھی

کُج شوق سی یار فقیری دا

کج عشق نے در در رول دِتا

کج سجناں کسر نا چھڈی سی

کج زہر رقیباں گھول دِتا

کج ہجر فراق دا رنگ چڑھیا

کج درد ماہی انمول دتا

کج سڑ گئی قسمت میری

کج پیار وِچ یاراں رول دِتا

کُج اُنج وی راہواں اوکھیاں سَن

کج گَل وِچ غماں دا طوق وی سی

کج شہر دے لوک وی ظالم سَن

کج سانوں مرن دا شوق وی سی

Recommended