مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہندوستانی سیاست میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار کی شخصیت ایک معمہ رہی ہے، وہ کب، کس وقت کیا فیصلہ لیں گے اور اس کے اثرات ملکی سیاست پر کیا پڑیں گے، وہ خود ہی جانتے ہیں، فیصلہ سامنے آتا ہے تو لوگ دنگ رہ جاتے ہیں اور جب اس کے نتائج سے لوگ واقف ہوتے ہیں تو حیرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
شرد پوار نے سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کا کہہ کر انہیں نہ صرف اقتدار سے دور کر دیا تھا ، بلکہ کانگریس کو ایک اور تقسیم کا سامنا کرنا پڑا تھا، نیشنلسٹ کانگریس اسی دور کی یاد گار ہے،اس معاملہ میں سنگما اور طارق انور پیش پیش تھے، طارق انور کانگریس میں لوٹ آئے، سنگما بھی اپنی موت آپ مر گیے، لیکن شرد پوار نے مہاراشٹر میں اسے مضبوط کیا اور چانکیہ کے انداز میں آگے بڑھے، شیو سینا اور بی جے پی کے جھگڑے میں ان کے محیر العقول کردار نے انہیں اقتدار تک پہونچا دیا اور مہاوکاس اگھاری کی حکومت قائم ہو گئی۔
یاد کیجئے وہ رات جب مہاراشٹر کے گورنر نے صدر راج ختم کرکے اجیت پوار کی حمایت سے بی جے پی کو حلف دلادیا تھا اور چند گھنٹے کے بعد ہی اجیت پوار نے منحرف ہو کر بی جے پی حکومت کو مٹی میں ملا دیا تھا، یہ بھی شرد پوار کی ایک چال تھی، اگر وہ اپنے بھتیجہ اجیت پوار کو اس کام پر نہیں لگاتے تو راتوں رات صدر راج ختم ہی نہیں ہوتا اور نئی حکومت بننے کے لیے راستہ ہموار نہیں ہوتا ، اجیت پوار نے اپنے اس اقدام سے سارے سیاست دانوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔
مہاوکاس اگھاڑی حکومت کے گرنے کے بعدشنڈے اور بی جے پی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی ادھر خبر ہی آ رہی تھی کہ اجیت پوار وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور بی جے پی سے ہاتھ ملانے سے انہیں گریز نہیں، اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ پارٹی ٹوٹ رہی ہے ، شرد پوار نے پھر ایک چھکا لگا یا اور پارٹی صدر سے استعفیٰ کا اعلان کر دیا، اس اعلان نے شرد پوار کے مخالفین کو ہکا بکا کر دیا اورپارٹی میں ان کے استعفیٰ واپس لینے کے لیے تحریک چلنے لگی، کئی عہدیداروں نے بھی استعفیٰ دے دیا، ایک کمیٹی بنائی گئی جو پوار کے استعفیٰ پر غور کرے، کمیٹی نے ان کا استعفیٰ نا منظور کر دیا تو انہوں نے چوتھے دن اپنا استعفیٰ واپس لے لیا اور شرد پوار کا ڈرامہ اختتام کو پہونچا۔
اس ڈرامہ نے پارٹی کو یک جٹ کیا اور اجیت پوار کے ا چھل کود کو ختم کر دیا، شرد پوار نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک شاطر سیاست داں ہیں اور ان کے چھ دہائی سے زیادہ سیاسی تجربات کسی کو بھی دھول چٹانے کے لیے کافی ہیں، چاہے ان کے بھتیجا اور رازداں اجیت پوار ہی کیوں نہ ہوں۔
ادھر عدالت نے بھی شنڈے حکومت کے قیام میں گورنر کے کردار پر سخت تبصرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ادھو ٹھاکرے نے اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے استعفیٰ نہیں دیا ہوتا تو ہم ٹھاکرے کی حکومت کو بحال کر دیتے،مگر ان کے استعفیٰ دینے کی وجہ سے حکومت کی بحالی ممکن نہیں، اس فیصلے کے بعد دیکھیے شرد پوار مہا وکاس اگھاڑی کی حکومت واپس لانے کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں۔