اعجاز زیڈ ایچ
آج 26؍دسمبر 1994پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں نمایاں اور شہرۂ آفاق شاعرہ” پروینؔ شاکر صاحبہ “ کا یومِ وفات ہے۔
نام سیّدہ پروین شاکر،تخلص پروینؔ 24؍نومبر 1952 میں کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ان کے آبا و اجداد ، چندن پٹی لہیریاسرائے ضلع دربھنگہ(بہار) ہندوستان کے رہنے والے تھے ۔ تقسیم کے بعد ان کے والدین پاکستان ہجرت کر گئے ۔
والد سیّد ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکرؔ تخلص کرتے تھے ۔ اسی نسبت سے وہ شاکر لکھتی تھیں ۔ ابتدا میں مینا تخلص کرتی تھیں۔ پندرہ برس کی عمر میں شاعری کی ابتدا ہوئی ۔پہلی نظم روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ۔1968 میں جامعہ کراچی سے انگریزی ادب اور لسانیات میں ایم اے کیا۔1971میں پروین نے جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ۔
ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے انہوں نے بینک ایڈ منسٹریشن میں ایم اے کیا ۔ عبداللہ گرلز کالج میں انگریزی کی لکچرر ہوئیں ۔سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوئیں۔کسٹم اینڈ ایکسائز کے محکمے میں کسٹم کلکٹر ہوئیں۔
ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی، لیکن 1989 میں علیحدہ گی ہوگئیں۔ بیٹے کا نام سیّد مرادعلی رکھا جسے گیتو بھی کہا جاتا تھا۔ پروین، احمد ندیم قاسمی سے بے حد متاثر تھیں اور انہیں عمو جان کہا کرتی تھیں۔
پہلا مجموعہ ” خوشبو“ انہی کے نام منسوب ہے ۔ 26؍دسمبر 1994 کو اسلام آباد کے نزدیک ایک ٹریفک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا ۔
مقبول ترین شاعرہ پروینؔ شاکر کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت۔۔۔
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
—
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
—
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
—
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
—
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
—
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
—
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
—
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون