Urdu News

کچھ یادیں کچھ باتیں: احمد ندیمؔ قاسمی

احمد ندیمؔ قاسمی

اعجاز زیڈ ایچ

آج – 10؍جولائی 2006پاکستان کے ممتازترین ترقی پسند شاعر،اہم افسانہ نگاروں میں ممتاز اور باکمال شاعراحمد ندیمؔ قاسمی کا یومِ وفات ہے۔

احمد ندیمؔ قاسمی کی پیدائش ۲۰؍نومبر ۱۹۱۶ کو رنگہ ،تحصیل خوشاب سرگودھا میں ہوئی تھی۔ احمد شاہ نام رکھا گیا ۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں میں ہوئی ۔ ۱۹۳۵میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ ۱۹۳۶ میں ریفامز کمشنر لاہور کے دفتر میں محرر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ۱۹۴۱ تک متعدد سرکاری محکموں میں چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرنے بعد دلی میں  ان کی ملاقات  منٹو سے ہوئی ۔

 منٹو اس زمانے میں کئی فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھ رہے قاسمی نے ان فلموں کے لیے گانے لکھے لیکن بد قسمتی سے کوئی بھی فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ قیام پاکستان کے بعد البتہ انہوں نے فلم ’ آغوش ‘ ’دو راستے ‘ اور ’ لوری ‘ کے مکالمے لکھے جن کی نمائش بھی عمل میں آئی۔ ۱۹۴۲ میں قاسمی دلی سے واپس آگئے اور امتیاز علی تاج کے ادارے دارلاشاعت پنجاب لاہور میں ’تہذیبِ نسواں‘ اور ’پھول‘ کی ادارے سنبھالی۔

قیام پاکستان کے بعد پشاور ریڈیو میں بطور اسکرپٹ رائٹر کے خدمات انجام دیں لیکن وہاں سے بھی جلد مستعفی ہوگئے۔ ۱۹۴۷ء میں ’سویرا‘ کے ادارتی عملے میں شامل ہوگئے۔ ۱۹۴۹ میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے سکریٹری جنرل منتخب کئے گئے۔

انجمن کی مقتدرہ مخالف سرگرمیوں کے باعث قید  کیے گئے اور سات مہینے جیل گزارے۔ ۱۹۶۳ میں اپنا ادبی مجلہ ’فنون‘ جاری کیا۔ ۱۹۷۴ سے ۲۰۰۶ تک مجلس ترقی ادب لاہور کے ڈائریکٹر رہے۔

١٠؍جولائی ٢٠٠٦ کو لاہور میں انتقال کر گئے۔

افسانوی مجموعے:

چوپال، بگولے،طلوع وغروب،گرداب،سیلاب،آنچل،آبلے،آس پاس،در ودیوار،سناٹا،بازار حیات،برگ حنا،گھر سے گھر تک،نیلا پتھر،کپاس کا پھول،کوہ پیما، پت جھڑ۔

شعری مجموعے:

رم جھم، جلال وجمال،شعلۂ گل،دشت وفا،محیط،دوام،تہذیب وفن،دھڑکنیں،لوح خاک، ارض وسما، انور جمال۔

تنقید:

ادب اور تعلیم کے رشتے، پس الفاظ، معنی کی تلاش ۔

ممتاز شاعر احمد ندیمؔ قاسمی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

اک محبت کے عوض ارض و سما دے دوں گا

تجھ  سے کافر کو تو میں اپنا خدا دے دوں گا

تو  جو  بدلا  تو  زمانہ بھی بدل جائے گا

گھر جو سلگا تو بھرا شہر بھی جل جائے گا

انداز  ہو  بہو  تری  آوازِ  پا  کا   تھا

دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

میں وہ شاعر ہوں جو شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا

یہ ہے وہ جرم جو مجھ سے کسی عنواں نہ ہوا

بزمِ انساں میں بھی اک رات بسر کر دیکھو

ایک  بار  اپنی  زمیں  پر بھی   اتر  کر  دیکھو

دلوں سے آرزوئے عمر جاوداں نہ گئی

کوئی  نگاہ  پسِ گردِ  کارواں  نہ  گئی

طلوعِ صبح نے چمکا دئے ہیں ابر کے چاک

ندیمؔ  یہ  مرا  دامانِ  مدعا  ہی  نہ  ہو

میری  محدودِ  بصارت  کا  نتیجہ  نکلا

آسماں میرے تصور سے بھی  ہلکا نکلا

جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم

بیدار  ہو  گئے  کسی  خوابِ  گراں سے ہم

ہم دن کے پیامی ہیں مگر کشتۂ شب ہیں

اس حال میں بھی رونقِ عالم کا سبب ہیں

مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو

میں بھی شامل ہوں محبّت کے گنہ گاروں میں

شعور میں، کبھی احساس میں، بساؤں اسے

مگر، میں چار طرف بے حجاب پاؤں اسے

مداوا  حبس  کا  ہونے  لگا  آہستہ   آہستہ

چلی آتی ہے  وہ  موجِ  صبا   آہستہ آہستہ

اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی

کوئی  پہچان  ہی  باقی  نہیں ویرانوں کی

دعویٰ تو کیا حسن جہاں سوز کا سب نے

دنیا کا مگر روپ بڑھایا تری چھب نے

جب   ترا   حکم  ملا  ترکِ  محبت  کر دی

دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی

ہم کبھی عشق کو وحشت نہیں بننے دیتے

دل کی تہذیب کو تہمت نہیں بننے دیتے

یوں تو اس جلوہ گہہ حسن میں کیا کیا دیکھا

جب تجھے دیکھ چکے کوئی نہ تجھ سا دیکھا

Recommended