Urdu News

فلم نغمہ نگاراورمعروف شاعر حمایت علی شاعرؔ کے یوم ولادت پر خصوصی تحریر

فلم نغمہ نگاراورمعروف شاعر حمایت علی شاعرؔ

اعجاز زیڈ ایچ

آج – 14؍جولائی 1926فلم نغمہ نگار اور معروف شاعر حمایت علی شاعرؔ کا یومِ ولادت ہے۔

نام میر حمایت علی اور شاعرؔ تخلص ہے۔ ۱۴؍جولائی ۱۹۲۶ کو اورنگ آباد(دکن) میں پیدا ہوئے۔ روزنامہ ’خلافت‘ میں کام کیااور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔۱۹۶۳ میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ’’ثلاثی‘‘ کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔

حمایت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے۔آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’آگ میں پھول‘، ’شکست آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘، ’دود چراغ محفل‘ (مختلف شعرا کے کلام)، ’عقیدت کا سفر‘ (نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)، ’آئینہ در آئینہ‘ (منظوم خودنوشت سوانح حیات)، ’ہارون کی آواز‘ (نظمیں اور غزلیں)، ’تجھ کو معلوم نہیں‘ (فلمی نغمات)، ’کھلتے کنول سے لوگ‘ (دکنی شعرا کا تذکرہ)، ’محبتوں کے سفیر‘ (پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام)۔

حمایت علی شاعرؔ کونگار ایوارڈ(بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔

حمایت علی شاعرؔ، ١٦؍جولائی ٢٠١٩ کو انتقال کر گئے۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:190

معروف شاعر حمایت علی شاعرؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے

تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا

تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی

کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے

صرف زندہ رہنے کو زندگی نہیں کہتے

کچھ غمِ محبت ہو کچھ غمِ جہاں یارو

شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ

ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر

حاصلِ غم کو خدا را غمِ حاصل نہ بنا

اس دشتِ سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے

چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے

بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے

مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے

روشنی میں اپنی شخصیت پہ جب بھی سوچنا

اپنے قد کو اپنے سائے سے بھی کم تر دیکھنا

اس دشت پہ احساں نہ کر اے ابرِ رواں اور

جب آگ ہو نم خوردہ تو اٹھتا ہے دھواں اور

میں سچ تو بولتا ہوں مگر اے خدائے حرف

تو جس میں سوچتا ہے مجھے وہ زبان دے

Recommended