Urdu News

اردو کے اہم اور معروف شاعر افتخار عارفؔ کی یوم پیدائش پر خاص تحریر

افتخار عارفؔ صاحب

پاکستان کے اہم ترین شاعروں میں نمایاں، اپنی تہذیبی رومانیت کے لیے معروف اور ممتاز شاعر” افتخار عارفؔ صاحب “ کا یومِ ولادت

نام افتخار حسین عارف اور تخلص عارفؔ ہے۔ ۲١؍مارچ ۱۹۴٣ء  ( کئی جگہوں پر ٢٣؍مارچ بھی ملتا ہے) لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بی اے ، ایم اے لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔

جرنلزم کا ایک کورس انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے بھی کیا۔۱۹۶۵ء میں مستقل طور پر پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔اس کے بعد افتخار عارف پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ جب ٹیلی وژن میں پروگرام ’’کسوٹی‘‘ کا آغاز ہوا تو عبید اللہ بیگ کے ساتھ افتخار عارف بھی اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔

 یہ پروگرام بہت علمی اور معلوماتی تھا۔ ۱۹۷۷ء میں ریڈیو اور ٹیلی وژن سے استعفا دے کر بی سی سی آئی بینک، لندن سے وابستہ ہوگئے۔اس کے بعد ڈائرکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان ،صدر نشین مقتدرہ قومی زبان اور چیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کے عہدوں پر فائز رہے۔ افتخار عارف نے نظم ونثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں :

’’مہر دونیم‘، ’حرفِ باریاب‘، ’بارہواں کھلاڑی‘، ’اقلیمِ ہنر‘، ’جہان معلوم‘، ’شہرعلم کے دروازے پر‘ (نعت ،سلام ومنقبت)۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو ’’آدم جی ایوارڈ‘‘،’’نقوش ایوارڈ‘‘، ’’صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘‘، ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ مل چکے ہیں۔بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:357

معروف شاعر افتخار عارفؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین

اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا

اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے

اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے

دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے

بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں

عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی

بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت

وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا

مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا

تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات

سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری

جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی مرا ہے

حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے

ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں

پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے

آگ میں آگ ملاتا ہے پھر پانی کرتا ہے

دل کے معبود جبینوں کے خدائی سے الگ

ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے

میرا مالک جب توفیق ارزانی کرتا ہے

گہرے زرد زمین کی رنگت دھانی کرتا ہے

دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ

رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے

وہی فراق کی باتیں وہی حکایت ِ وصل

نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں

وہ جس کی جرأت پرواز کے چرچے بہت تھے

وہی طائر ہمیں بے بال و پر کیوں لگ رہا ہے

حریمِ لفظ میں کس درجہ بے ادب نکلا

جسے نجیب سمجھتے تھے کم نسب نکلا

دِل کی قیمت پہ بھی ،اِک عہد نِبھائے گئے ہم

عُمر بھر بیٹھے رہے، ایک ہی دِیوار کے پاس

خوابِ دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں

چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں

ہم کہاں اپنے سوا اور کو گردانتے ہیں

ہم نے لِکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دُعا کیے جائیں

دُعا کے دِن ہیں مسلسل دُعا کیے جائیں

سلوک میں بھی وہی تزکرے وہی تشہیر

کبھی تو کوئی اک احسان غائبانہ کرے

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وه قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں

نئے نئے دائروں کی گردش میں اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں

یہی ہے مصلحت جبر احتیاط تو پھر

ہم اپنا حال کہیں گے چھپا کے لہجے میں

میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو

ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں

دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں

عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی

نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی

‏کوئی تو ہو جو گھبرائے میری خاموشی سے

کسی  کو  تو سمجھ آئے میرے لہجے کا دکھ

‏شکم کی آگ لِیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر

سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہِجرت کیا

میثاقِ اعتبار میں تھی اک وفا کی شرط

اک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئی تو کیا

ستارہ وار جلے، پھر بجھا دیے گئے ہم

پھر اس کے بعد نظر سے گرا دیے گئے ہم

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

Recommended