اعجاز زیڈ ایچ
آج 24؍نومبر 1952پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں نمایاں، نسائی احساسات و جذبات کی ترجمان اور شہرۂ آفاق شاعرہ پروینؔ شاکر صاحبہ کا یومِ ولادت ہے۔
نام سیّدہ پروین شاکر، تخلص پروینؔ 24؍نومبر 1952 میں کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ان کے آبا و اجداد، چندن پٹی لہیریاسرائے ضلع دربھنگہ(بہار) ہندوستان کے رہنے والے تھے ۔ تقسیم کے بعد ان کے والدین پاکستان ہجرت کر گئے ۔
والد سیّد ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکرؔ تخلص کرتے تھے ۔ اسی نسبت سے وہ شاکر لکھتی تھیں ۔ ابتدا میں میناتخلص کرتی تھیں۔ پندرہ برس کی عمر میں شاعری کی ابتدا ہوئی ۔
پہلی نظم روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ۔1978میں جامعہ کراچی سے انگریزی ادب اور لسانیات میں ایم اے کیا۔1971میں پروین نے جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ۔
ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے انہوں نے بینک ایڈ منسٹریشن میں ایم اے کیا ۔ عبداللہ گرلز کالج میں انگریزی کی لکچرر ہوئیں ۔سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوئیں۔
کسٹم اینڈ ایکسائز کے محکمے میں کسٹم کلکٹر ہوئیں۔ ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی، لیکن 1989 میں علیحدہ گی ہوگئیں۔ بیٹے کا نام سیّد مرادعلی رکھا جسے گیتو بھی کہا جاتا تھا۔
پروین، احمد ندیم قاسمی سے بے حد متاثر تھیں اور انہیں عمو جان کہا کرتی تھیں۔پہلا مجموعہ ” خوشبو“ انہی کے نام منسوب ہے ۔ 26؍دسمبر 1994 کو اسلام آباد کے نزدیک ایک ٹریفک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا۔
مقبول ترین خاتون شاعرہ پروینؔ شاکر صاحبہ کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت:
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
—
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
—
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
—
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
—
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
—
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
—
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
—
مقتلِ وقت میں خاموش گواہی کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح
—
دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے
تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
—
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی