آفتاب سکندر
I am going to meet the Arabs in open battle, and fight them as best as I can. If I crush them, my kingdom will then be put on a firm footing. But if I am killed honorably, the event will be recorded in the books of Arabia and India and will be talked about by great men.
’’میں عربوں کے ساتھ جنگ لڑنے جارہا ہوں. میں اپنی مکمل کاوش کے ساتھ لڑوں گا اگر میں نے ان کو بچھاڑ دیا تو میرا کنگڈم مضبوط پاؤں پر کھڑا ہو گا۔ اگر میں ہلاک کردیا گیا تو اس کے متعلق عربوں اور ہندوستانیوں کی کتب میں لکھا جائے اور اس کا تذکرہ عظیم لوگ کریں گے‘‘۔
یہ الفاظ جب سماعتوں میں جب آتے ہیں یا زینتِ دید و رصد ہوتے ہیں مخموم و ملول ہو کر دل سے اک آہ نکلتی ہے کہ ہم کتنے بخت برگشتہ ہیں کہ اپنے سورما، سور بیر، سرباز، جانباز سپاہیوں کی شجاعت و بے باکی کو خراج تحسین پیش نہ کر پائے بلکہ اپنی تاریخ بیخ کنی کرکے ڈاکولٹیرے کو اپنا ہیرو بنا بیٹھے۔یہ انتہائی دُکھ دائق بات ہے۔
بہرکیف یہ الفاظ ہیں ہمارے سورما سور بیر سندھ دھرتی کے شکتی شالی مہاراجہ داہر کے جس نے یہ الفاظ کہے تھے کیونکہ اس کو یقین تھا کہ وہ دھرتی ماتا کے لیے جان کی بازی ہار گیا تو سُر خرو ضرور ہوگا اور یہی ہوا کہ اس نے اپنی خون سے سندھ کی آبیاری کی۔راجہ داہر کے قاتل ڈاکولٹیرے بن قاسم کو ہمارے مطالعہ پاکستان کی کتاب ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے اور بلاوجہ مذہب کا سہارا لے کر سندھ دھرتی کے سپوت سورما سوربیر راجوں کے راجہ مہا راجہ داہر کو کیوں کہ وہ ہندو تھے تو ہندو بنا کر پیش کرتے ہوئے ظالم اور جابر ثابت کرنے کی سعی کرتی ہے۔ خیر یہ جھوٹی باتیں کب تک کوئی مانے گا۔
بن قاسم جس کو ہمارا مطالعہ پاکستان ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے یہ وہ جابر انسان تھا جس نے عتیہ بن عوف کو چار سو کوڑے مارے تھے اور سنتِ رسول مونڈھ دی تھی اس کا قصور فقط اتنا تھا کہ اس نے شیرِ خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کرم اللہ وجہہ پر لعن طعن سے انکار کیا تھا۔یہ واقعہ کتاب تہذیب التہذیب میں درج ہے۔
بتاؤ یار ایسا ظالم جابر جلاد سفاک کٹھور انسان ہمارے ہاں بطور ہیرو پیش کیا جاتا ہے۔ اس رذیل انسان کا آقا حجاج بن یوسف تھا جو تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا جلاد تھا اس ظالم نے حضور نبی کریم کے خاندان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔اہلِ بیت پر جبر کیا۔
اس سے بڑا جھوٹ جو مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جاتا ہے کہ سندھ میں اسلام ڈاکو لٹیرے بن قاسم کی وجہ سے آیا۔حالانکہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ تاریخِ دمشق میں ہے تاریخِ بغداد میں ہے کہ سندھ کی دھرتی پر پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تشریف لائے جن میں سے دو نے سندھ کی پوتر دھرتی پر قیام بھی کیا۔ ان کی قبریں بھی سندھ میں بنیںمگر پھر بھی مطالعہ پاکستان کا جھوٹ بِک رہا ہے۔
اس کے برعکس جس سورما سور بیر مہاراجہ داہر نے عربیوں کو اپنے ہاں پناہ دی اس کے متعلق انتہائی گھٹیا جھوٹی بات گھڑی جاتی ہے کہ مہاراجہ کی شادی اپنی بہن سے ہوئی۔ اتنا بڑا جھوٹ، مہاراجہ برہمن خاندان سے تھے اور برہمن خاندان میں تو کزن میرج تک گناہ تصور کی جاتی ہے وہاں اتنا بڑا گناہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔
پھر ڈاکو لٹیرے کو ہیرو بنانے کے لیے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ وہ کسی مظلوم عورت کی پُکار پر آیا تھا وہ جیسے کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، عقل سے سوچنے پر بھی پتہ چلتا ہے کہ خطوط کے دور میں اُس بیچاری نے کیسے حجاج بن یوسف تک پیغام پہنچایا جو ہزاروں لڑکیوں کو پہلے سے لونڈیاں اور باندی بنائے بیٹھا تھا۔ جنگ میں ڈاکو لٹیرےبن قاسم نے ہندوؤں کے آخری راجہ داہر کا سر قلم کرکے حجاج بن یوسف کو پیش کیا اور عربیوں کو پناہ دینے والے کی بیٹیوں کو ڈاکو لٹیرے بن قاسم نے خلیفہ ولید بن عبد الملک کے سامنے پیش کیا، جن میں سے بڑی صاحب زادی پر اُس حرامی کا دل آگیا اور اس نے اپنی طرف کھینچا جس پر صاحب زادی نے بتایا کہ ڈاکو لٹیرے بن قاسم نے اُن کی عصمت دری کی ہے اور اسی وجہ سے خلیفہ نے ڈاکو بن قاسم کو عبرت ناک سزا دے کر مارا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ راجہ داہر کی صاحبزادی نے جھوٹ بولا تھا تو ان سب کے لیے یہ جواب عرض ہے کہ جو بندہ ایک لڑکی کے جھوٹ کو سچ مان کر اپنے قابل سپاہی کو مار دے اس کو اپنا خلیفہ بنانے والی قوم کیا ہوگی؟
راجہ داہر ہر لحاظ سے سندھ دھرتی کے سورما اور سور بیر تھے وہ اس مٹی کے سپوت تھے سندھ دھرتی کے غیرت مند بیٹے تھے اُن کو یاد کرنا ہمارا حق بنتا ہے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنا ہمارا فرض ہے۔