Urdu News

سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ کی سیرت وسیاسی بصیرت            

صحافی ابوشحمہ انصاری

ابوشحمہ انصاری(سعادت گنج،بارہ بنکی)

آپ کا نام علی، کنیت ابوالحسن اور ابو تراب تھا والد نے حیدر (شیر لقب رکھا تھا) آپ کے والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ تھا ۔ آپ والد، اور، والدہ دونوں طرف سے ہاشمی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی تھے ۔ آپ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تقریباً دس برس پہلے پیدا ہوئے خوش قسمتی کی حد یہ کہ آغوش نبوت میں تربیت پائی ہادئ برحق نے اعلان نبوت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً اسلام قبول کیا –

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چونکہ ایام طفولیت ہی سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دامن میں تربیت پائی تھی اس لئے آپ محاسن اخلاق اور حسن سیرت کے نمونہ تھے آپ کی زبان کبھی کلمہ شرک وکفر سے آلود ہوئی اور نہ آپ کی پیشانی غیر خدا کے آگے جھکی دور جاہلیت میں ہر قسم کے گناہ سے پاک رہے شراب کے ذائقہ سے اسلام سے پہلے بھی آپ کی زبان آشنا نہ ہوئی – صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین

میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے علم و فضل اور جرات و شجاعت کے باعث ممتاز تھے – آپ بڑے بلند حوصلہ اور غیر معمولی ہمت و استقلال کے مالک تھے – آپ کی ذات اخلاق حسنہ کا پیکر اور اوصاف حمیدہ کا مجسمہ تھی۔ آپ کی ذات نمونہ زہد تھی بلکہ حق یہ ہے کہ آپ کی ذات پر زہد کا خاتمہ ہو گیا آپ کے کاشانہ فقر میں دنیاوی شان و شکوہ کا گزر نہ تھا ۔

کوفہ تشریف لائے تو دارالامارت کے بجائے ایک میدان میں فروکش ہوئے اور فرمایا کہ عمر بن خطاب نے ہمیشہ ان عالیشان محلات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا ۔ اپنے عہد خلافت میں آپ نے مسلمانوں کی امانت بیت المال کی جس طرح حفاظت کی اس کا اندازہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے اس بیان سے ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ نارنگیاں آئیں، امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ اور امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک ایک نارنگی اٹھا لی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو چھین کر لوگوں میں تقسیم کر دی۔

(ازالتہ الخفاء بحوالہ ابن ابی شیبہ)

ایام خلافت میں بھی زہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اور آپ کی زندگی میں کوئی فرق نہ آیا موٹا جھوٹا لباس اور روکھا پھیکا کھانا ان کے لئے دنیا کی بڑی نعمت تھی معاش کی یہ حالت تھی کہ ہفتوں گھر سے دھواں نہیں اٹھتا تھا بھوک کی شدت ہوتی تو پیٹ پر پتھر باندھ لیتے ۔

 ایک دفعہ بھوک کی شدت میں کاشانہ اقدس سے مزدوری کے لئے نکلے دیکھا کہ ایک ضعیفہ اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی ہے اس کے پاس پہنچ کر اجرت ملے گی اور پانی سینچنے لگے یہاں تک کہ ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے اس محنت و مشقت کے بعد ایک مٹھی کھجور اجرت میں لی لیکن تنہا خوری کی عادت نہ تھی کھجوریں لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ کھانے میں ساتھ دیا(حوالہ مسند ابن حنبل)

اس کے علاوہ در دولت پر کوئی دربان نہ تھا عین اس وقت جب قیصر و کسریٰ کی شہنشاہی مسلمانوں کے لئے زرو جواہر گل رہی تھی اسلام کا خلیفہ ایک معمولی غریب کی طرح زندگی بسر کرتا تھا تمام غزوات میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بے مثال دلیری کا ثبوت دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غزوہ بدر میں بہادری کے جوہر دکھانے پر آپ کو تلوار ذوالفقار عطا فرمائی تھی آپ نے بڑے بڑے بہادروں کو شکست دی کسی بھی معرکہ میں آپ

کے قدم پیچھے نہ ہٹے لوگ آج بھی آپ کو “شیر خدا ” کے نام سے یاد کرتے ہیں –

علم و فضل میں بھی آپ اپنے ہم عصروں سے ممتاز تھے قرآن و حدیث پر آپ کو جو عبور حاصل تھا وہ بہت کم صحابہ کو نصیب ہوا ایک مفتی اور فقہیہ کی حیثیت سے آپ کا کوئی ہم پلہ نہ تھا

 رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے “میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کا دروازہ ہیں”

جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک جادو بیان خطیب بھی تھے آپ شاعری کا بہت عمدہ ذوق رکھتے تھے عربی نحو کے قواعد آپ نے مرتب کیے تھے قرآن کے حافظ بھی تھے اور اس کے نکتوں کو خوب سمجھتے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑے حق گو حق پسند اور بے باک انسان تھے ۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ازالتہ الخفا میں لکھتے ہیں ۔

“بڑے بڑے لوگوں میں جو عظیم الشان اخلاق ہوتے ہیں مثلاً شجاعت، سخاوت حمیت اور وفا وہ مکمل طور پر ان میں موجود تھے”

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ میانہ قد آور فربہ ابزام تھے سینہ چوڑا اور کلائیاں نہایت مضبوط تھیں رنگ گندمی، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ پر رونق اور خوب صورت تھا، سینہ پر بال تھے بازو اور تمام بدن گھٹا ہوا، پیٹ بڑا اور، باہر کو نکلا ہوا سر پر بال نہ تھے، ریش مبارک بڑی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک کندھے سے دوسرے کندھے تک پھیلی ہوئی تھی ۔

 جب چلتے تو ادھر ادھر جھکتے ہوئے چلتے تھے اور جب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے تو وہ سانس تک نہیں لے سکتا تھا جب میدان جنگ میں جاتے تھے تو بےباکانہ دوڑتے ہوئے جاتے تھے – طاقتور اور دل کے مضبوط تھے جس شخص سے کشتی لڑتے تھے اس کو پچھاڑ دیتے تھے بہادر تھے اور جس جنگ میں مقابلہ کرتے تھے دشمن پر غالب آتے تھے ۔(ابن خلدون)

ملکی نظم ونسق میں سب سے اہم کام عمال کی نگرانی ہے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کا خاص اہتمام کیا جب وہ کسی عامل کو مقرر کرتے تھے تو اس کو نہایت مفید اور گراں بہا نصیحتیں کرتے تھے کبھی کبھی عمال کے طرز عمل کی تحقیق کرتے تھے جہاں سخت گیری کی ضرورت ہوتی تھی آپ کی طبعیت لچک سے آشنا تھی ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس زہد و تقوی، امانت اور، عدل و انصاف سے حکومت کرنا چاہتے تھے اور لوگوں کو جس راستے پر لے جانا چاہتے تھے زمانہ کے تغیر اور حالات کے انقلاب سے لوگوں کے دلوں میں اس کی صلاحیت باقی نہیں رہی تھی ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرح کوڑا ہاتھ میں لے کر اکثر رات کو گشت کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے محاصل کے صیغہ میں خاص اصلاحات جاری کیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جنگل سے کسی قسم کا مالی فائدہ حاصل نہیں کیا تھا آپ کے عہد میں جنگل کو بھی محاصل ملکی کے ضمن میں داخل کیا گیا اور اس پر مالگزاری عائد کی گئی۔

 عہد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں گھوڑے زکوٰۃ سے مثتثنی تھے عہد فاروقی میں جب عام طور سے ان کی تجارت ہونے لگی تو اس پر بھی زکوٰۃ مقرر کر دی گئ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک تمدنی اور جنگی فوائد کے لحاظ سے گھوڑوں کی افزائش نسل میں سہولت بہم پہنچانا ضروری تھا اس لئے اپنے زمانے میں زکوۃ موقوف کر دی(کتاب الخراج ابو یوسف)

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وجود رعایا کے لئے آیہ رحمت تھا بیت المال کے دروازے غربا و مساکین کے لئے کھلے رہتے تھے اس میں جو رقم جمع ہوتی تھی نہایت فیاضی کے ساتھ مستحقین میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔

ذمیوں کے ساتھ بھی نہایت شفقت آمیز برتاؤ کرتے تھے ایران میں کئ بار بغاوتیں ہوئیں لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہمیشہ لطف و کرم سے کام لیا یہاں تک کہ ایرانی اس لطف و شفقت سے متاثر ہو کر کہتے تھے خدا کی قسم اس، عربی نے نوشیروان کی یاد تازہ کر دی۔

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ خود ایک بڑے تجربہ کار جنگ آزما تھے اور جنگی امور میں آپ کو پوری بصیرت حاصل تھی اس لئے اس سلسلے میں آپ نے بہت سے انتظامات کئے چنانچہ شام کی سرحد پر نہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کیں 40ھ میں جب امیر معاویہ نے عراق پر یورش کی تو پہلے ہی ان ہی کی سرحدی فوجوں نے ان کو آگے بڑھنے سے روکا اسی طرح ایران میں مسلسل شورش اور بغاوت کے باعث بیت المال اور، عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے نہایت مضبوط قلعے بنوائے جنگی تعمیرات کے سلسلے میں دریائے فرات کا پل بھی جو معرکہ صفین میں فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیر کیا تھا قابل ذکر ہے۔

مسند خلافت پر قدم رکھنے کے بعد سے آخر وقت تک گو خانہ جنگیوں نے فرصت نہ دی تاہم اس فرض سے بالکل غافل نہ تھے ایران اور آرمینیہ میں بعض نو مسلم عیسائی مرتد ہو گئے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہایت سختی سے ان کی سرکوبی کی اور ان میں سے اکثر تائب ہو کر پھر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔

 حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسلمانوں کی اخلاقی نگرانی کا بھی نہایت سختی کے ساتھ خیال رکھا مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں جرم کی نوعیت کے لحاظ سے نئ سزائیں تجویز کیں جو اس سے پہلے اسلام میں رائج نہ تھیں مثلاً زندہ جلانا، مکان مسمار کرا، دینا چوری کے علاوہ دوسرے جرم میں بھی ہاتھ کاٹنا لیکن اس سے یہ قیاس نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ شرعی حدود کے اجرا میں کسی اصول کے پابند نہ تھے ۔

زندہ جلا دینے کی سزا چند زندیقوں کو دی تھی مگر جب حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سزا کی ممانعت فرمائی ہے تو آپ نے اس فعل پر ندامت ظاہر فرمائی شراب نوشی کی سزا میں کوڑوں کی تعداد متعین نہ تھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے لئے اسی کوڑے تجویز کئے (ترمذی، کتاب الخراج نیز سنن ابی داؤد)

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کاعہد خلافت اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کامیاب تھا آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شوریٰ کو برقرار رکھا جس کی وجہ سے نظام حکومت میں جمہوریت اور مساوات کی روح کارفرما رہی مقدمات کے فیصلے کتاب وسنت کی روشنی میں طے کرتے اور علم کی اشاعت میں سرگرم عمل رہتے تھے عدل وانصاف کے لئے آپ کا دور ہمیشہ یاد گار رہے گا ذمیوں کے حقوق کی آپ کے عہد میں پوری نگہداشت ہوتی تھی اور وہ نہایت پر سکون زندگی بسر کرتے تھے ۔

جنگ نہروان کے بعد خارجیوں نے حج کے موقع پر جمع ہو کر مسائل حاضرہ پر گفتگو شروع کی بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے پایا کہ جب تک تین آدمی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور عمرو بن العاص زندہ ہیں دنیائے اسلام کو خانہ جنگیوں سے نجات

نہیں مل سکتی چنانچہ تین آدمی ان تینوں کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گئے ۔

 عبد الرحمن بن ملجم نے کہا کہ میں علی  کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں دوسرے دونوں نے حضرت معاویہ اور عمرو بن عاص سے نپٹنے کا عہد کیا عبدالرحمن بن ملجم پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فوج میں تھا صفین کی جنگ میں آپ کے زیر کمان شریک ہوا تھا لیکن بعد میں خارجی ہو گیا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کرنے کے ارادہ سے جب کوفہ آیا تو اس کی ملاقات ایک حسین عورت قطام نامی سے ہوئی اس سے شادی کی درخواست کی قطام کا باپ اور بھائی خارجی تھےاور نہروان میں کام آئے تھے اس نے مہر میں حضرت علی کے خون کو شرط ٹھہرایا اس واقعہ نے ابن ملجم کے ارادوں کو پختہ تر کر دیا اس، نے ناکامی سے بچنے کے لئے دو تین اور آدمیوں کو بھی ساتھ ملا لیا (البدایہ النہایہ)

رمضان کا وسط تھا اور ہجرت کا چالیسواں برس – حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک دن حسبِ معمول فجر کے لئے گھر سے نکلے ابن ملجم قریب ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھات لگا کر بیٹھا تھا آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پاس سے گزرے تو ابن ُملجم کے ایک ساتھی نے وار کیا جو خطا گیا اب ابن ُملجم نے تلوار چلائی جو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پیشانی پر پڑی ابن ملجم پکڑا گیا اس کے ساتھی روپوش ہو گئے ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اتنے سخت زخمی ہوئے تھے کہ زندگی کی ُامید نہ تھی جناب امیر المومنین کو اٹھا کر لے گئے تلوار زہر آلود تھی اس لئے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالت تشویشناک ہوگئ اسی دن آپ کے سامنے ابن ُملجم کو پیش کیا گیا آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے بیٹھنے کا حکم دیا اور نرمی سے پوچھا کہ تم نے میری جان کا قصد کیوں کیا؟ اس کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا اس کا جرم ثابت تھا آپ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ اگر میں جانبر نہ ہو سکا تو، ابن ملجم کو اسی طرح ایک وار سے قتل کرنا جس طرح اس نے ایک وار سے مجھے زخمی کیا ہے اسے اذیت نہ دینا اور نہ ہی اس کے اعضاکاٹنا کیونکہ ہادئ برحق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اپنے خاندان والوں کو مخاطب کر کے میرے قتل کے نام سے مسلمانوں میں خونریزی نہ کرنا – سوائے میرے قاتل کے اور کسی پر ہاتھ نہ اٹھانا (تاریخ طبری)

قاتل کو قید میں ڈال دیا گیا آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ دھیان رکھتے تھے کہ اس پر سختی نہ ہونے پائے کھانے کے وقت پوچھتے کہ میرے قیدی کو کھانا دیا گیا ہے؟ زخمی ہونے کے قریباً دو روز بعد واصل حق ہو گئے۔

وفات سے قبل آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل بیت کے نام ایک وصیت تحریر فرمائی جو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے آپ کے اہل بیت نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو رات کی تاریکی میں پوشیدہ دفن کیا ۔ دشمنوں کی کینہ پروری کے خوف سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا، مزار خفیہ رکھا گیا۔

 دوسرے روز ابن ملجم کو حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے پیش کیا گیا آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وصیت کے مطابق ایک ہی وار میں اس کا سر اڑا دیا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تقریباً اکسٹھ برس کی عمر پائی خلافت کی مدت چار سال نو ماہ ہے۔

Recommended