ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری
ادبی تنقید کے اپنے اصول و ضوابط ہیں 'یہ کسی بھی تخلیق کے نقائص نکالنے کا نام نہیں ہے اور وہ بھی اسطرح کہ خود کی سوچ کے مطابق تخلیق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یہ ایسی ہونی چاہے یہ ویسی ہونی چاہیے۔ اگر انسان تخلیق وتنقید کی علمی وادبی اورفکری و تکنیکی بصیرت رکھتا ہو تو وہ کسی بھی معیاری تخلیق کو ادبی ڈسکورس بناتا ہے اور اس کے معیار'موضوعاتی پیش کش'فنی و تکنیکی اسالیب وغیرہ کا مفصل جائزہ لیتا ہے جس کے دوران اس کی خوبی اور خامی بھی اجاگر کرتا ہے اگر خامی نظر نابھی آئے تو بھی یہ تنقیدی جائزہ/تجزیہ کہلائے گا۔
کئی لوگوں کی تحریریں عمدہ تنقیدی بصیرت کی حامل ہوتی ہیں جبکہ کئی لوگوں نے تنقید نگاری کو ڈنڈی مارنے کی کرتب بازی سمجھ رکھا ہے۔ اس سے ہوتا کیا ہے کہ ان کی عقل ڈنڈی مار بن جاتی ہے اور آہستہ آہستہ ان کی اچھی بات بھی رجیکٹ ہوتی رہتی ہے۔ اس ضمن میں ابراہیم اشک صاحب کا یہ شعر کتنا معنی خیز نظر آتا ہے:
یہ علم و ہنر اشک کسوٹی پہ پرکھنا
تنقید کا شعور ہر اک کو نہیں ہوتا
اس لیے ہر کسی کی فضول گوئی کو علمی رائے یا تنقید نہیں سمجھنا چاہے۔ کسی کی تحریر خود ہی اپنی معیار پسندی کا جواز فراہم کرتی ہے۔ڈنڈی مار دماغ کی بات کو Yesکے بجائے فورا Noکہہ کر رد کرنا چاہے۔