Urdu News

تراویح اورمسخ ہوتا قرآنی ذوق

قرآن کریم کا عکس

محمدوہاج الدین اختر

گزشتہ دنوں ایک موقر واٹس ایپ گروپ کے توسط سے تراویح کاایک آڈیو موصول ہوا، اطلاع کے مطابق ریاست کیرالہ کے ‘ساکی ناکہ’کی ایک مسجد میں دس روزہ تراویح کایہ تیسرادن تھا،پوسٹ کنندہ نے لکھاکہ میں مذکورہ مسجدمیں تراویح پڑھنے کی غرض سے گیا ،ابتدائی چند رکعات میں جب حافظ صاحب کی تلاوت کچھ پلے نہیں پڑی توموبائل کی ریکارڈنگ آن کرکے نمازتراویح میں حافظ صاحب کے ذریعے کی جارہی قرآن کریم کی تلاوت کومحفوظ کرلیا۔

حافظ صاحب نے بڑی لخلخے سے دسویں پارے کی ابتدائی آیات کی تلاوت شروع فرمائی،اوردوسری سطرسے ہی ‘کہیں کی اینٹ کہیں کاروڑااٹھاکربڑی دیدہ دلیری کے ساتھ قرآنی عبارت میں بھان متی کاکنبہ جوڑنے میں لگ گئے تقریبا آٹھ دس رکعات کی تراویح ریکارڈ کی گئی تھی جو پورے طورپرفرضی قرآن خوانی پرمبنی تھی ،جس سے یقینی طور پریہ اندازہ ہواکہ قرآن کریم حافظ صاحب کے حافظے کی گرفت سے مکمل طورپرباہرتھا۔

اس کے باوجود حافظ صاحب نے شاید متوقع کچھ دنیوی “ثمن قلیل”کی خاطر اپنی گراں قدرمتاع آخرت کے زیاں کاسامان کرنے کی بےجا اورنارواجسارت کربیٹھے، زیرنظر سطورلکھی ہی جارہی تھیں کہ تراویح میں فرضی تلاوت کاایک دوسراآڈیو بھی من و عن اسی نوعیت کاموصول ہوا،اوریہ تو  مشتے نمونہ ازخروارے صرف دومثالیں ہیں ، ورنہ دجل وفریب کی وسیع دنیامیں اس جیسی مزیدمثالوں سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔

اکثرہاحفاظ جن کو قرآن یاد بھی ہوتاہے ،ان میں بیشتر کی تلاوت وقرأت اتنی صبارفتاربلکہ برق رفتارہوتی ہے کہ تلاوت کے آداب اورجملہ حقوق اس برق رفتاری کی زدمیں اتنی بری طرح مجروح اورپامال ہوتے ہیں کچھ اتہ پتہ نہیں چلتا کہ آخرکس”گرنتھ”سے تراویح پڑھی جارہی ہے ، بدقسمتی سے خاکسار کوخودبھی ایسے کئی حفاظ کو تراویح میں سننے کا اتفاق ہواہے جن کی تلاوت کاادنی حصہ بھی میری گرفت میں نہیں آسکا۔

بس تراویح کے نام پربرسرمصلی بے ہنگم آوازکاتسلسل تھا ، شاید ایسے ہی حافظوں ،قاریوں ،اورقرآن خوانوں کے بارے میں ارشادرسالت(ص) ہے کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ جن پرخودقرآنی حروف بھی لعنت کناں ہوتے ہیں ، عوام الناس کا قرآنی ذوق بھی اتنامسخ اور کالعدم ہوچکاہے کہ انہیں حسن تلاوت والی قدرے وقت طلب تراویح راس نہیں آتی،اورہ ایسے حفاظ وقراء کی حوصلہ شکنی کرتے نظرآتے ہیں جو تلاوت کے باب میں قرآنی حقوق کی رعایت کرتے ہوے صاف صاف قرآن پڑھنے کااہتمام کرتے ہیں۔

بلکہ عندالعوام ایسے حافظوں کی زیادہ پذیرائی اورمقبولیت ہے جن کے قرآن پڑھنے کی رفتار”مانندبراق”ہوتی ہے، یہ کاہل عوام ایسے حافظوں کو ہی حافظ کادرجہ دیتے اور سرآنکھوں پہ بٹھاتے ہیں،جوقرآن کو سرپٹ ہانکتے ہیں،اورجن کی تلاوت کی صحت سرے سے مشکوک ہوتی ہے،”جیسی روح ویسافرشتہ”کے مصداق لوگوں کے اس بگڑے ہوے قرآنی مزاج و مذاق،اوررجحان کو بھانپ کرہی کچھ خوف خداسے عاری ناپختہ اورفرضی حافظوں کے حوصلے بلندہیں ،اوروہ دوگھنٹے میں چھ پارے قرآن پڑھنے کاڈھونگ رچاکرقرآنی اعتبارسے مفلوج اور ناکارہ عوام سے دادحفاظت وصول کرتے ہیں۔

قرآن کریم کے حوالے سے لوگوں کایہ مسخ شدہ قرآنی مزاج اتنا پختہ ہوچکاہے کہ میں اکثرکہا کرتاہوں کہ ہمارے یہاں کے فاسدماحول میں اگر امام کعبہ بھی تراویح کی امامت فرمانے لگیں تویہ رفتار پسند مقتدی انہیں بھی مسترد کردیں گے،اورتراویح کے لیے کسی حافظ ریل،حافظ راجدھانی،اورحافظ راکٹ کاانتخاب ہی لائق ترجیح قرار پاے گا ، چھ دن اورآٹھ دن کی تراویح بھی اب فیشن کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے ،اہل تجارت،اورارباب سیاست کی جملہ مصروفیات کاکوہ ہمالہ بھی چونکہ رمضان اور تراویح کے معاملے میں ہی سدسکندری بن کرحائل ہوجاتاہے۔

اس لیے تجارت وسیاست پیشہ حضرات کی طرف سے نجی طورپرایک عدد حافظ ہائرکرکے دربارالہی کوچھوڑکراپنے ذاتی دربار میں چھ روزہ تراویح کی بزم سجائی جاتی ہے ، اور قرآنی و الہی شان کو نمایاں کرنے کے بجاے اپنی سیاسی وانفرادی شان کی نمائش کے لیے پرتکلف اختتامی ودعائیہ تقریب کااہتمام ہوتاہے،اورجس نے قرآن مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔

اس کی دعاؤں پر بھروسہ کرنے کے بجاے کسی خانقاہ کے زیب سجادہ، یاشہرکے بڑے امام اوربڑے مولاناباضابطہ دعاء کےلیے مدعو کئے جاتے ہیں ،جواس بات پرغور کیے بغیرکہ محض دوگھنٹے میں پانچ اور چھ پارے پڑھ کر قرآن  کریم کی کیادرگت بنائی گئی ہوگی ،ناقدانہ اور اصلاحی پہلوؤں سے یکسر مداہنت اختیار کرتے ہوے سارازوربیان فضیلت کلام اللہ پرصرف کرتے ہیں ،اوراس طرح چھ دن والی اللے تللے تراویح کی حوصلہ افزائی کرتے ہوے مسلمانوں کوذلت وخواری سے نکالنے کی رقت آمیزدعافرماکر سوے خانقاہ اور جانب حجرہ رواں دواں ہوجاتے ہیں۔

لہذایہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ نماز تراویح جیسی اہم عبادت میں کلام الٰہی کی تلاوت وسماعت کے حوالے سے عوام الناس کے ذہن ومزاج کی غلط تشکیل میں خودتراویح پڑھانے والے حافظ،یہ صاحبان سجادہ،اورعبادتوں کی پیشوائی کرنے والے مقتداحفاظ وعلما کابڑاکردارہے،جس کے لیے عنداللہ انہیں ماخوذاورجوابدہ ہونا ہوگا،نیزان مدارس کے لیے بھی یہ موقع احتساب ہے جواپنی کارگردگی دکھانے کی ہوڑ میں اور دستاربندی کی عجلت میں کمزوراورناپختہ فارغین کوبھی فضیلت کی دستارعطاکرکے”خام مال”قوم کو سپرد کرتے ہیں ،جس کے نتیجے میں اس نامکمل حافظ پر گھروالوں اورسماج کی طرف سے تراویح پڑھانے کے لیے دباؤ اورپریشرکاسامناہوتاہے۔

جس کے زیراٹرخواہی نخواہی عدم اطمینان کے باوجود بھی تراویح پڑھانے کی ہمت کربیٹھتاہے ، مقام افسوس ہے کہ قرآنی نسبت کے حامل اس ماہ صیام میں تراویح جیسی اہم عبادت کے نام پر قرآنی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بشمول حاملین قرآن عوام وخواص سب ملوث ہیں ،یہ لمحہء فکراورتشویش ناک امر ہے،جس کی فوری اصلاح ناگزیرہے،بصورت دیگرمقدس مہینے میں مقدس کلام الٰہی کے ساتھ بے حرمتی اورمذاق کایہ ابتلاے عام کہیں ہمارے لیے وبال وعذاب کاپیش خیمہ نہ ثابت ہو رب کریم اصلاح احوال کی توفیق دے ،آمین

Recommended