مولانافرمان مظاہری
سعادت گنج،بارہ بنکی(بھارت)
گزشتہ 2/دسمبر2022 جمعہ کی آدھی رات تقریباً ایک بجے کے آس پاس میرے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے اور آواز آتی ہے کہ استاد الشعراء جناب طارق انصاری اس دارِفانی سے داربقاء کی جانب کُوچ کرگئے۔ ان کے انتقال کی خبر میرے لیے شاق تو تھی لیکن تعجب کی بات نہیں تھی۔ اس لئے کہ یومِ جمعہ کی صبح سے ہی استاد محترم مرض الوفات میں مبتلا تھے۔ اور ان پر سکرات کی کیفیت طاری ہو چکی تھی۔ جمعہ کے پورے دن ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر پر لوگوں تانتا لگا رہا۔ ہم لوگ بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کے پاس سورہ یسٓ کی تلاوت کرنے پہونچے تھے۔
مرحوم طارق انصاری کے انتقال کی خبرسن کر بہت افسوس ہوا۔ آج بھی دل افسردہ اور رنجیدہ ہے۔ وہ ایک شفیق انسان اور بہترین استاد تھے۔ اُن سے میری خاص قربت رہی ہے۔ کیوں کہ وہ ہمیشہ بہت ہی محبت سے ملا کرتے تھے۔ وہ روزانہ میرے گھر کے پاس یا میری دوکان پر اخباربینی اور چائے نوشی کی غرض سے آکر بیٹھا کرتے تھے۔ وہیں پر کبھی کبھی ان سے اپنے ذریعے لکھے گئے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی تصحیح بھی کروا لیا کرتا تھا۔ وہ ایک عمدہ انسان اور بہترین شاعر تھے۔ وہ ضلع بارہ بنکی کا قیمتی ادبی سرمایہ تھے۔ وہ شاعری کے بے تاج بادشاہ تھے۔ جن کے درمیان ہم اور ہمارے والدمحترم اٹھا بیٹھا کرتے تھے۔
مرحوم طارق انصاری ہماری پرانی تہذیب کے نمائندہ تھے۔ وہ تہذیب جو اپنے تمام تر آثار کے ساتھ اب تقریباً معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ اردو ادب کے شہہ سوار اور قلم کے بادشاہ تھے۔ وہ فی البدیہ شاعر تھے۔ بیٹھے بیٹھے جدید اشعار اور مضامین لکھوا دیا کرتے تھے۔ ذاتی طور پر وہ مجھ سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔ میں نے اپنی لکھی ہوئی کچھ نعتیں اور ایک دو دیش گیت انہیں سے تصحیح کروائے تھے۔ میں بہت سی محفلوں اور نشستوں میں اُن کے ساتھ شریک رہا۔ وہ نہ صرف خود اپنا کلام سناتے تھے بلکہ دوسروں کا کلام بھی بہت غور سے سنا کرتے تھے۔ اور جہاں ضروری سمجھتے وہاں کھل کر داد بھی دیتے تھے۔ ان کی غزلیں بھی بہت ہی عمدہ اور اردگرد کی زندگی کے موضوعات کو سمیٹتے ہوئے ہوا کرتی تھیں۔ وہ بیک وقت غزل کے بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ہی اعلیٰ اسلامی شاعری کا بھی ایک معتبر نام ہیں۔ اللہ تعالٰی انہیں اپنی جوارِ رحمت میں اعلی سے اعلی جگہ عطا فرمائے ۔اُن کی کمی ہمیں بہت عرصے تک محسوس ہوتی رہے گی۔ وہ ہماری محفلوں کی بھی رونق تھے اور ہماری صحبتوں کی بھی رونق تھے۔ اب ان کا خلاء پُر ہونا قدرے مشکل ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ
مرکزِ علم و فن ہے یہ گاؤں ہمارا مصباح
اس میں اسلام و غنی ، طارق و انور آئے
ہمارے گاؤں سعادت گنج میں اسلام الدین ، غنی وارثی ، انورعزیزی اور طارق انصاری ، جیسے بہترین اور کہنہ مشق شاعرگزرے ہیں۔ جنہوں اپنی شاعری کے ذریعے اردو زبان کی خوب آبیاری کی ہے۔
دہلی میں مقیم مولانا عبدالحئ قاسمی نے کہا کہ “طارق انصاری ہندوستانی شعراء میں بلند پایہ مقام کے حامل تھے۔ انہوں نے استاد عزیز بارہ بنکوی کی شاگردی اختیار کرکے ان سے زبان و بیان اور فن شاعری کے رموز سیکھے۔ ان کی شاعری میں روایت کے گہرے شعور کے ساتھ جدیدیت کی آگہی بھی نظر آتی ہے۔ وہ ایک سچے بھارتی اور صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ اسی لئے ان کے کلام میں قومی اور ملی رنگ ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ مذہبی شاعری حمد ، نعت اور سلام میں ان کو خاص انفرادیت حاصل تھی۔ خصوصاً نعت نگاری میں ان کاتخلیقی کام بڑی اہمیت کاحامل ہے۔
ان کی نعتوں میں تہذیبِ سخن اور عشقِ رسولؐ کے مؤدب جذبات ہمیشہ نظر آتے رہے ہیں۔ نعت گوئی میں انہوں نے اپنا اسلوب خودتشکیل دیا۔ ان کی نعتیں ادبی اعتبار سے بہت بڑا جمالیاتی درجہ رکھتی ہیں۔ وہ اپنی غزلوں میں زیادہ تر عصری مسائل کو جگہ دیتے تھے۔ ذاتی طور وہ ایک ملنسار اورمخلص انسان تھے۔ ان کی موت سے اردو ادب و زبان کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ مگر ان کا فن اور ان کا نام بہت دنوں تک زندہ رہے گا”۔
آنکھیں بھگو کے دل کو ہلا کر چلے گئے
ایسے گئے کہ سب کو رُلا کر چلے گئے