Urdu News

تشہیر کہانی۔ ایک منفرد رجحان

تشہیر کہانی۔ ایک منفرد رجحان

تحریر وتحقیق: ذوالفقار علی بخاری

انسان کو ازل سے ہی جاننے کا شوق رہا ہے اوریہی وہ عمل تھا جس نے کہانی کو جنم دیا۔

ہم اپنی زندگی میں کئی سچی اورفرضی کہانیاں پڑھتے ہیں اورانھی کی بدولت بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔

 ادبی دنیا میں کئی نوجوان اچھی کہانی لکھ کر اپنا نام بنا نے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ نامور ادیبوں کی کہانیوں کو پڑھ کر کہانی لکھنا سیکھ جاتے ہیں یا پھر خدادا صلاحیتوں کے بل بوتے پر ادبی دنیا میں نام بناتے ہیں۔ہر کہانی کا ایک مقصد ہوتا ہے لیکن کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو مخصوص پیغا م دینے کے لئے لکھی جاتی ہیں جس سے پڑھنے والے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔

 ”تشہیر کہانی“ بھی ایک ایسا ہی سلسلہ ہے۔

راقم السطور کی نظر میں ”ایسی کہانی جو کسی بھی تشہیری مقصد کے لئے لکھی جائے گی وہ ”تشہیر کہانی“کہلائی گی۔“

اس میں کسی بھی رسالے کے خاص نمبر، کسی بھی ادیب کی نئی آنے والی کتاب، ناول،شعری مجموعے یا پھر کسی ادبی سرگرمی کے حوالے سے معلوماتی تشہیری کہانی لکھی جا سکتی ہے جس کا مقصد اُس کے بارے میں پڑھنے والوں کو آگاہ کرنا ہے۔اگرچہ اس حوالے سے نقد وتبصرہ بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن تشہیری کہانیاں عام قارئین پڑھ کراپنی کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں جس سے ادب کے فروغ میں بھرپورمدد مل سکتی ہے کہ تبصروں کی بجائے کہانی ہرایک کو اپنی جانب زیادہ مائل کرتی ہے اوریہی اس کی مقبولیت اوراہمیت ظاہر کرتی ہے۔

مثال کے طور پر بچوں کے لیے کہانیوں کا مجموعہ ”انمول خزانہ“  فاکہہ قمر کی اولین کتاب ہے جس میں بچوں کے لیے دل چسپ کہانیاں ہیں جن کی تعداد بیس سے زائد ہے۔ا س کی قیمت چار سو روپے ہے۔ اس حوالے سے جب کہانی لکھی جائے گی تو بیان کردہ معلومات کے ساتھ یہ بھی آگاہ کیا جائے گا کہ ”انمول خزانہ“ کو کہاں سے اورکیسے حاصل کیا جائے گا اور کوئی رابطہ نمبر بھی دینا ہو تو وہ بھی آگاہ کیا جائے گاجیسے اخبارات و رسائل میں اشتہارات میں دکھائی دیتا ہے۔اس میں ”انمول خزانہ“ کو کیوں خرید ا جائے اس حوالے سے بھی تذکرہ کیا جائے گا۔اس طرح سے تشہیر کہانی پڑھنے والے کو جہاں کہانی ہی کہانی میں معلومات ملیں گی وہیں ”انمول خزانہ“ کے حوالے سے تشہیر بھی ہوگی اور بچے، والدین یا پھر اساتذہ کرام بیان کردہ خصوصیات کی روشنی میں کتاب خریدنے کا فیصلہ کریں گے۔آپ کہ سکتے ہیں کہ بیک وقت تشہیر اور معلومات سے بھرپور کہانی تشہیری کہانیوں کا حسن ہے۔

 راقم السطور کو ”آپ بیتیاں۔ حصہ دوئم“ نامی کتاب جس میں تیس نامور ادیبوں اورمدیران کی آپ بیتیوں شامل ہیں۔ اس کے لئے بطور معاون مدیر کام کرنے کا موقع ملا تو اُس کی تشہیر کو بھرپور انداز میں کرنے کے لئے تشہیری کہانی لکھنے کا خیال آیا جو کہ اپنی طرز کا ایک منفرد تجربہ ہے۔ اس حوالے سے پہلی کہانی فیس بک پر بعنوان”پہلی سیڑھی“ بتاریخ 29ستمبر2021 لکھی تو خوب پزیرائی ملی۔

اُس کے بعد ایک مختصر کہانی”تحفہ“،”بہترین دوست“، گلدستہ ٹوٹ بٹوٹ کے ”لائبریری نمبر“ کے لئے لکھی جانے والی کہانی ”علم کا خرانہ“،خونوشت ”جی دار“ کے لیے لکھی جانے والی مختصرتشہیر ی کہانی”جی دار“ اورمعروف بھارتی واٹس ایپ محفل”بچپن“ کے حوالے سے لکھی جانے والی کہانی”بچپن نگری“ نے بھرپور پذیرائی حاصل کی۔

یہ کہانیاں ویب سائٹس (دی سورس بھارت، ہماری ویب ڈاٹ کوم،پرتلپی اُردو،اردو ڈاٹ انڈیا نیریٹو ڈاک کوم)، الفجر ڈیجیٹل میگزین، بھارت،ڈیلی حالات نیوز، بھارت اورروزنامہ نیا نظریہ، بھوپال (بھارت) میں شائع ہو چکی ہیں۔بچپن نگری کے نام سے تشہیری کہانی روزنامہ نیانظریہ، بھوپال میں مورخہ 22جولائی 2023کوشائع ہوئی ہے۔

جس طرح سے کاروباری اشتہارات ہوتے ہیں اسی طرح سے تشہیری کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں جو کاروباری اشتہارات کی مانند اپنا پیغام پڑھنے والوں تک پہنچا سکتی ہیں۔بچوں کے لیے شائع ہونے والی نئی یا پرانی کتب، ناولز، رسائل کے خاص نمبر کے لیے کہانی کی صورت میں  معلومات دینا بہترین نتائج لا رہا ہے تاہم کہانی کے عنوان کے ساتھ لفظ تشہیر کہانی یا تشہیری کہانی ضرور لکھا جائے تاکہ ادیبوں سے ہٹ کر کوئی قاری(بچے، والدین، اساتذہ وغیرہ) پڑھیں تو انھیں علم ہو سکے کہ تشہیری کہانی ہے۔

اس طرح کی کہانیوں کو شائع کرنے والے  مدیران کو یہ خیال رکھنا چاہیے۔ تشہیرکہانی اپنا ایک مخصوص روپ رکھتی ہے اوراس کا ذائقہ ہر ایک کو پسند نہیں آسکتا ہے۔یاد رکھیں کہ آج کے دور میں تشہیر بے حد ضروری ہو چکی ہے اس کے بغیر نہ تو کوئی رسالہ بھرپور فروخت ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی عام سے عام چیز کو خریدنے پر گاہکوں کو مائل کیا جا سکتا ہے۔

راقم السطور کی خواہش ہے کہ ادب کے میدان میں بھی تجربات کرنے چاہیں اسی سے مزید فروغ حاصل ہوگا۔تعمیر پبلی کیشن، حیدر آباد(بھارت) سے 2023میں شائع ہونے والا کہانیوں کامجموعہ ”قسمت کی دیوی“ اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں بھی ایک تشہیری کہانی موجود ہے۔

محترمہ مہوش اسد شیخ کی کہانی”کتاب دوست“ جو کہ بچوں کا باغ، لاہور کے جنوری 2022کے شمارے میں شائع ہوئی اُسے ہم تشہیری کہانی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں 26کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اس سے قبل کسی بھی کہانی میں اتنی بڑی تعداد میں ادیبوں کی کتب کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس حوالے سے یہ اولین کہانی ہے۔

اس کہانی کو ملنے والی پذیرائی نے ”تشہیر کہانی“ سلسلے کی مقبولیت کوعیاں کر دیا  ہے۔تشہیر کہانی سلسلے کو محترمہ مہوش اسد شیخ نے مقبول کرانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے کہ انھوں نے اپنی کتب کی تشہیرکے لیے اسے اپنایا ہوا ہے۔

 خان حسنین عاقب کی کہانی”موگلی اور کہاوت کہانی نمبر“ گلدستہ ٹوٹ بٹو ٹ جونیئر کے کہاوت کہانی نمبر کے لئے بطورخاص لکھی گئی ہے جس نے راقم السطور کو بے حدمسرت کیا ہے کہ حسین عاقب جیسے معروف ادیب نے ’’تشہیر کہانی“سلسلے کو سند پزیرائی دی۔

محترمہ ادیبہ انور کی کہانی”آم کے آم گھٹلیوں کے دام“ روزنامہ شہباز، پشاور میں 26فروری2022کو شائع ہوئی۔17مارچ2022کو محترمہ فاکہہ قمر کی تشہیری کہانی”فوٹو شوٹ“ڈیلی حالات نیوز، بھارت میں شائع ہوئی۔ احمد نعمان شیخ نے ٹائم ٹریول کے موضوع پر کہانی ”ٹائم ٹریول کیا ہے“ لکھی جس نے خوب قارئین سے پذیرائی حاصل کی ہے، یاد رہے یہ کہانی”بچوں کا باغ“ کے مارچ 2022کے شمارے میں شائع ہوئی۔

 محمد رمضان شاکر کی تشہیری کہانی روزنامہ مہنگائی، بھارت میں 15اپریل 2022کو شائع ہوئی ہے۔ یہ راقم السطور کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان اوربھارت کے کئی بہترین لکھنے والوں نے اس سلسلے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔اب تک کئی قلم کاروں کی اخبارات، رسائل، ویب سائٹس اورفیس بک پر تشہیری کہانیاں پڑھنے کو مل چکی ہیں جو میرے لئے باعث مسرت ہیں۔

ان میں سے کئی کہانیوں کو قارئین کی بھرپور پزیرائی بھی ملی ہیں تادم تحریر ڈاکٹر سیما شفیع،احمد نعمان شیخ، خان حسنین عاقب۔ بھارت،تہنیت افتخار،ادیبہ انور،بہرام علی وٹو،مہوش اسد شیخ،محمد رمضان شاکر،نیلم علی راجہ،ہادیہ جنید،عرفان حیدر،شاہ رخ گل، حمیرا علیم،سعدیہ نسیم،عیشاء صائمہ،سیدہ رابعہ ہاشمی، صائمہ مسلم، حمزہ علی، اریبہ عابد حسین،طیبہ زاہد، محمد عثمان ذوالفقار،سیدہ لبنی رضوی، سائرہ شاہد، ارسلان اللہ خان، فاکہہ قمر،سبین مقصود، محمد عثمان ذوالفقار،میمونہ گورمانی،سیماب گل،صبا اظہر،شہزاد بشیر،شفا ء چوہدری،محمد عدیل،شمع اخترانصاری،عائشہ آصف،نحل سعدی آرائیں،فرزین لہرا،سحرش ظفر،صحیفہ ہادیہ،مریم ملک،ثناء ادریس،کومل یسینٰ،عمیمہ خان، عطاء السلام سحر،زینب شہزادی،،ملائکہ سلیمان،خدیجہ ظفر، عائشہ سلیم قریشی،روشنی خان،بنت السلام خان،رحمت علی،رحاب صفی،ایمن صغیر،میمونہ ارم مونشاہ،ثمرہ شوکت، اُفق زہرہ بلوچ،دانیال حسن چغتائی، رضوان علی سومرو،ثمرینہ علی، ناہید گل،مدیحہ بخاری،کنیز نور فاطمہ،حمیرا نگاہ، سمن مجید، ہویدا صالح،عمرفاروق، علیشہ چوہدری، صدف جاوید،مہرین فاطمہ، انیس فاطمہ،فائز ہ ماجد،بنت محمود،طیبہ صباحت،فاطمہ طارق حسین،یاسرفاروق،ردا آرزو،بینش احمد،قانتہ رابعہ،بنت مسعود احمد،عائشہ حنا،عصمت اسامہ،نمرہ خان، نمرہ شہزاد،نوید حسین کھوکھر،ظل ہما،زینب اعظم،بلال محسن،بنت سکوت،غلام عباس بھٹی،وسعت اللہ خان،کومل یاسین،سیدہ فاطمہ تنویر،نزہت وسیم،مریم گل کی لکھی گئی کہانیاں نظر سے گزر چکی ہیں۔

محمد جعفرخونپوریہ نے ادب اطفا ل ادیبہ فاکہہ قمر کی دو کہانیاں ”ڈینگی ڈریکولا اور”ببلی اورپی جی او ٹائیگر“ کے پاکٹ سائز مجموعے کے طور پر شائع کیں۔ ان کہانیوں میں اگرچہ مختلف پراڈکٹس کی تشہیر کی گئی تھی لیکن یہ بچوں کے لیے سبق آموزبھی ہیں کہ ایک خاص پراڈکٹ کی تشہیر کے ساتھ بچوں کواپنا خیال رکھنے کی تلقین کی گئی تھی۔

یہ دل چسپ امر ہے کہ تشہیری کہانیاں اگرمختلف اداروں کی تشہیر کرنے لگیں تو ادب اطفال ادیبوں اوررسائل کو بھرپور انداز میں اشتہارات بھی وصول ہو سکتے ہیں جو کہ ان کی بقاء کے لیے بے حدضروری ہو چکے ہیں۔تشہیر کہانی کے بعدتشہیری نظم کا سلسلہ ادب اطفال میں یاسرفاروق نے متعارف کروایا ہے اوربقول سراج عظیم ”تشہیر کہانی کی بہ نسبت تشہیری نظم کی تخلیق زیادہ مشکل کام ہے۔“تشہیری نظم اورکہانی معمولی فرق کے ساتھ ایک ہی مقصد رکھتے ہیں۔

یاسر فاروق اب تک کئی ادیبوں کی کتب کے حوالے سے بہترین نظمیں منظرعام پر لا چکے ہیں۔ جن کتب کی نظمیں زیادہ مشہور ہوئی ہیں ان میں قرضے کی گائے، انمول خزانہ، مارخور، جی دار، فرزین نامہ،صدیوں کا آسیب،جنگل میں دنگل،خوابوں کا جزیزہ،لاجوردی اورانٹیک کار شامل ہیں۔

تشہیر کہانی اورنظم کے سلسلے کی ابھی شروعات ہیں،یقین کامل ہے کہ رفتہ رفتہ دونوں اردو ادب میں رائج ہو جائیں گی اور اردو ادب کے فروغ کا سبب بنے گا۔راقم السطور کو یقین ہے کہ یو ں ہی قلم کار تشہیر کہانی لکھتے رہیں گے تاکہ بچوں اوربڑوں کو مطالعے کی جانب مائل کرسکیں،درحقیقت یہی وہ بات ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے راقم السطور ”تشہیر کہانی“ سلسلے کو متعارف کرایا ہے جس کا بنیادی مقصد اردو زبان اوراردو ادب کی ترویج و ترقی ہے۔

Recommended