فکر و نظر

باکمال شاعر آڈھا خان

آفتاب سکندر

خوشاب کے خوش آب نے جہاں اپنی سرزمین کو زمینی خدوخال سے مالا مال کر رکھا ہے. وہیں ادبی حوالے سے باکمال شخصیات پیدا کرکے بھی معروف کر رکھا ہے ۔ جن میں واصف علی واصف، احمد ندیم قاسمی وغیرہ  شامل ہیں۔ آج ہم خوشاب کی ایسی ہی ایک نابغہ روزگار شخصیت پر تحریر قلمبند کرنے جارہے ہیں۔

تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی ہمیں بتلاتی ہے کہ گنجیال شہر کو آباد دو برادران نطق اور گوین نے کیا۔ دونوں بھائیوں نے بحکم سرکار یہاں سکونت اختیار کی۔ نطق کی آل نطقال کہلاتی ہے اسی نطقال برادری میں ایک جاگیر دار ملک آڈھا خان نطقال کا جنم ہوا۔ جس کی اولاد آگے آڈھے خیل کہلانے لگی۔

 جاگیر دار آڈھا خان کے پوتے ملک شیر محمد کے ہاں 4اپریل 1944 عیسوی کو ان کے پسر اصغر کا جنم ہوا۔ جس کا نام انہوں نے اپنے دادا کی محبت میں آڈھا خان رکھ دیا۔ استاد آڈھا خان آڈھے خیل کا نام ان کے پردادا کے نام پر رکھا گیا۔

آڈھا خان نے ہشتم جماعت میں پہلا دوہڑا کہا۔ استاد آڈھا خان نے کافی، رباعی اور دوہڑے کی صنف میں طبع آزمائی کی مگر اجابت دوہڑے کی صنف میں پائی۔عطاء اللہ خان کی مطرب رنگیں نوائی نے آڈھا خان صاحب کومشہور روز گار کردیا۔

آڈھا خان صاحب کی عطاء اللہ خان عیسی خیلوی سے ملاقات کا واقعہ بھی دلچسپ ہے۔ جب آڈھا خان صاحب کی اشاعت ایک اخبار میں ہوئی۔ تو ان ایام میں ان کے آبائی مسکن گنجیال میں آپ کے دولت کدے پر دو نوجوان تشریف لائے۔ انہوں نے یوں تعارف کروایا کہ ہمیں عطاء اللہ عیسی خیلوی نے بھیجا ہے۔وہ آپ کا کلام پڑھنا چاہتے ہیں۔عطاء اللہ عیسی خیلوی اس وقت غیر معروف تھے۔

 چنانچہ استاد آڈھا خان صاحب  ان نوجوانوں کو چائے پانی کی غرض سے ایک ہوٹل پر لے گئے۔ وہیں پر ایک نوجوان نے مطلع کیا کہ وہ عطاء اللہ عیسی خیلوی ہے ۔ یوں آڈھا خان صاحب کی اُن سے دوستی ہوگئی۔ یہ تعلقات تادمِ مرگ قائم رہے۔

آڈھا خان صاحب کے پسران کی شادی خانہ آبادی پر عطاء اللہ عیسی خیلوی نے اپنی عقیدت کا کھل کر اظہار کیا. ایک پروگرام میں استاد آڈھا خان صاحب کو اپنا محسن قرار دیا۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی استاد آڈھا خان کی خودداری سے بہت متاثر تھے چالیس سے زائد عرصہ پر محیط رفاقت میں عطا اللہ عیسی خیلوی کہتے ہیں کہ آڈھا خان نے آج تک اپنے ذاتی کام کے لیے زحمت نہیں دی۔

 سرائیکی فلم میں گایا جانے والا گیت,, جانی رات رہ پو گالہیں کریسو،، آڈھا خان صاحب کا لکھا ہوا گیت تھا جو خواجہ غلام فرید کے نام سے مشہور ہوا۔آڈھا خان صاحب نے بھی زیادہ شور نہیں ڈالا کیونکہ یہ ان کے لیے باعث افتخار تھا کہ ان کے کلام کو خواجہ غلام فرید کا کلام سمجھا جائے۔

عطاء اللہ عیسی خیلوی کہتے ہیں کہ آڈھا خان کا کلام پڑھتے ہوئے مجھ پر وہی کیفیت طاری ہوتی جو خواجہ غلام فرید کا کلام پڑھتے ہوئے طاری ہوتی۔ استاد سوہنا خان بے وس آڈھا خان کو دوہڑے کا بادشاہ کہتے ہیں۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی کے ابتدائی گیت تقریباً سارے استاد آڈھا خان صاحب کے ہی تھے۔

آڈھا خان صاحب پیشہ ورانہ زندگی میں مدرب تھے۔ آپ نے داستان سسی پنوں لکھی. یہ پوری داستان دوہڑوں کی شکل میں لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔ تین کیسٹس ریلیز کی گئی۔ یہ داستان عطاء اللہ عیسی خیلوی نے بھی پڑھی. اس کے علاوہ احمد خان ملنگ نے بھی پڑھی۔

آپ کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ انشاء پرداز کے دوست جو ائیر فورس میں تھے. سکیسر بیس پر دوران ملازمت ان کی ایک افسر سے ملاقات ہوئی جو آڈھا خان صاحب کے اتنے مداح تھے کہ انہوں نے کھُلی چھٹی دے رکھی بس اتنی گزارش کی جب بھی آڈھا خان صاحب سے ملاقات ہو اُن کو میرا سلام کہنا،حالانکہ انہوں نے آڈھا خان صاحب کو دیکھا تک نہیں تھا بس کلام سن کر فریفتہ ہوئے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آڈھا خان صاحب کا کلام آدمی کو اپنا گرویدہ بنالینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

1983 عیسوی میں آپ نے سعودی عرب روانگی اختیار کی۔ دو ماہ مدینہ منورہ میں گزارے. وہیں پر اپنا نعتیہ کلام مکمل کیا ۔ یہ درود بر حبیبِ خدا’’ میرے آقا ربی رحمت تے برکت دا انعام ہووی‘‘ لکھا جو بہت پُرتاثیر کلام تھا۔ آپ جدی پشتی بریلوی تھے شاہ احمد رضا خان بریلوی سے بہت متاثر تھے۔

محافل میلاد میں شرکت قابلِ فخر سمجھتے، عارفانہ کلام بہت پسند کرتے،عابدہ پروین کی گلوکاری کے دلدادہ تھے۔ آپ کی پہلی کتاب’’رموز عشق‘‘ شائع ہوئی جس میں سسی پنوں کی داستان کے علاوہ سوہنی مہیوال کی داستان شامل تھی۔ حسن اور عشق کے مکالمے پر دوہڑے بھی قابلِ تحسین تھے۔

 انشاء پرداز کے والد الحاج حق نواز آڈھے خیل نے احمد فراز مرحوم کے سامنے حسن اور عشق کے مکالمے پر دوہڑے سنائے تو احمد فراز نے باقاعدہ بحرین سے پاکستان استاد آڈھا خان کو داد و تحسین پیش کرنے کے لیے فون کال کی۔

آپ کے تین مجموعہ ہائے کلام شائع ہوئے جن’’جام عشق‘‘ انتخاب از کلام اور’’ راز و نیاز‘‘شامل ہیں۔ 4مئی 2012 عیسوی کو آپ کا وصال ہوا۔ اللہ رب العزت آپ کی قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین۔

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

9 months ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

9 months ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

9 months ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

9 months ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

9 months ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

9 months ago