Urdu News

اپنےانقلابی خیالات کےسبب کئی برس قیدمیں رہنےوالےمشہورشاعر:فیض احمدفیضؔ

شاعر فیض احمدفیضؔ

اعجاز زیڈ ایچ

آج 13؍فروری 1911سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک،اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہنے والے ممتاز مشہور شاعرفیض احمد فیضؔ صاحب کا یومِ ولادت  ہے۔

نام فیض احمد اور تخلص فیضؔ تھا۔ ۱۳؍فروری ۱۹۱۱کو کالا قادر،ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سیالکوٹ میں پاس کیا۔ بعد ازاں لاہور میں ایم اے (انگریزی) اور ایم اے (عربی)کے امتحانات پاس کیے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے۔

 دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج کے محکمۂ نشرواشاعت سے منسلک رہے۔ جب لاہور سے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’امروز‘‘ جاری ہوئے تو آپ ا ن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ عبداللہ ہارون کالج، کراچی کے پرنسپل اور نیشنل کونسل آف آرٹس کے صدر بھی رہے۔

فیض راول پنڈی سازش کیس میں ۱۹۵۱ میں پاکستان سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے۔ وہ چار سال تک سرگودھا، منٹگمری، کراچی اور لاہور کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔۱۹۵۵ میں قید سے رہا ہوئے۔ دسمبر۱۹۵۸ میں دوسری بار گرفتار ہوئے اور اپریل ۱۹۵۹ میں قید سے رہائی ملی۔

فیض کو شعر وشاعری سے لگاؤ اوائل عمر سے تھا۔ کسی سے اصلاح نہیں لی۔ادب کے لینن پرائز سے آپ کو نوازا گیا۔ فیض نے اردو غزل کو ایک نیا لہجہ دے کر اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ ان کا شمار پاکستان کے بہترین غزل گو شعرا میں ہوتاہے ۔ ۲۰؍نومبر۱۹۸۴ کو لاہور میں انتقال کرگئے۔

ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:

’’نقشِ فریادی‘‘، ’’دستِ صبا‘‘، ’’زنداں نامہ‘‘، ’’دستِ تہہ سنگ‘‘، ’’شام شہرِ یاراں‘‘، ’’متاعِ لوح وقلم‘‘، ’’سروادئ سینا‘‘، ’’مرے دل ، مرے مسافر‘‘ ۔ ان کی کلیات ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے چھپ گئی ہے۔ مضامین کا مجموعہ ’’میزان‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا ہے۔ ’’مہ وسال آشنائی‘‘ (یادوں کا مجموعہ) بھی ان کی تصنیف ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:21

برصغیر کے مقبول شاعر فیض احمد فیضؔ صاحب کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت۔۔۔

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان

بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک

اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

Recommended