الطاف جمیل ندوی
کاغذ کی یہ مہک ، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
کتاب کا نام لب پر آتے ہی عجیب حرارت پیدا ہوتی ہے یہ مونس و رفیق جو ہیں، یہ جہاں اس کے لیے حسیں ہے دل کش و دلفریب ہے۔ جو کتابوں کے سائے میں رہ کر عمر عزیز کے کچھ پل گزار کر بھی دنیا کے اکثر نشیب و فراز سے واقف ہوجاتا ہے ، کتاب کیا ہے سرور زندگی ہے قرار قلب ہے رونق نگاہ ہے، کتاب کی رفاقت میں جب مطالعہ شروع ہوجاتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے، کہ کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے؛ بلکہ انسان کی غم خوار ومددگار، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والا قندیل، علم وآگہی کا بہترین زینہ، تنہائی کی جاں گسل طوالت کی بہترین رفیق، زندگی کی نا ہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے۔ جب انسان گردشِ زمانہ، زندگی کے تلخ واقعات اور ذاتی مشکلات کے ہجوم میں الجھ کر مایوس لمحات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی کی پرلطف نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتابی حروف کی سرگوشیاں سفید صفحات کے کالے پیلے نقوش اندھیروں میں روشنی لے کر ناامیدی میں امید کی کرن لے کر گم کردہ منزل کو راہیں سمجھاتی ہیں اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میںآ جاتا ہے۔ اور اس روشنی میں اپنی شخصیت کو سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی اچھائی اور برائی سے باخبر ہونے لگتا ہے۔
کتابوں کے تئیں اہل دانش کہتے ہیں؛
ابن تیمیہ ناصر الدین البانی شیخ تھانوی علامہ کشمیری سید مودودی ابوالحسن علی ندوی جیسی نایاب شخصیات کا مطالعہ کرنے پر احساس ہوتا ہے کہ ان اصحاب علم کے اکثر اوقات کتب بینی میں ہی گزرتے تھے جن کے علم و عرفان کی قائل ایک دنیا ہے آج تک خیر یہ تو ہمارے لئے نمونہ ہی ہیں چلیں کچھ غیر مسلم دانشوروں کے اقوال دیکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ایک چینی کہاوت ہے کہ "جب آدمی ۱۰کتابیں پڑھتا ہے تووہ ۱۰ہزار میل کا سفر کرلیتا ہے۔ " گر آپ مسلسل سفر کی صعوبتوں کے بجائے لذت سفر کے طالب ہیں تو کتب بینی اس کا واحد ذریعہ ہے کہ چلو کتابوں کی بارگاہ میں رہ کر منزلوں کی منزلیں طے کریں اک رفیق محبت کے ساتھ ایسے ہی گورچ فوک انتخاب کتاب کے لئے کہتے ہیں: اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کردیں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کو جاننے کی بھوک ۔۔''فرانس کافکا: بنا کتاب کے گھر ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے ۔۔"
گٹھولڈ لیسنگ:
"دنیا اکیلے کسی کو مکمل انسان نہیں بنا سکتی، اگر مکمل انسان بننا ہے تو پھر اچھے مصنفین کی تصانیف پڑھنا ہونگی تب جاکر زندگی میں ٹہراؤ اور اچھائی پیدا ہوگئی ۔۔۔"
دو جرمن اقوال :
کتابیں پیالے کی مانند ہیں جن سے پانی پینا تمہیں خود سیکھنا ہوگا"
"جرمن زبان میں گدھے کو ایزل کہتے ہیں جب اس لفظ کو الٹا پڑھا جائے تو یہ لیزے بنتا ہے اس لئے یہ کوئی عجوبہ نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ کچھ معلومات حاصل کرنے کے لئے تمھیں گدھے کی طرح محنت کرنا ہوگی۔ دنیا کا خواہ کوئی بھی انسان ہو گر اس کا میدان علم ہے تو وہ یوں ہی کتابوں کی محبت کے قصیدے بیان کرے گا جیسے کہ آپ نے ملاحظہ فرمائے" آئے کاش کہ وہ دن لوٹ کر آتے کہ کتابیں ہوتی ہیں اپنے جہاں کے حسیں ساتھیوں کی مانند کیا مسلم دنیا اس بات کی منکر ہوسکتی کہ جب تک ہم علم و ادب کے طالب و داعی تھے دنیا میں ہمارا سورج طلوع ہونے کے بجائے اک جہاں کو تابناک بنائے ہوئے ہماری عظمتوں کے قصیدے بیان کئے جاتے تھے وہ لمحے کس قدر دلخراش تھے کہ کتابوں کو چنگیزیوں نے دریا برد کردیں یہ ان کی وحشت و درندگی تھی کہ علم کی آماجگاہیں بھی اہل ایمان کی ان کو رآس نہ آئیں کیا قرطبہ غرناطہ کے کتب خانے ہم بھول سکتے ہیں جہاں کتابوں کی عظمتیں ہر سو اہل ایمان کی کتب سے لگاؤ کا منہ بولتا ثبوت تھیں جو دیار غیر پہنچائی گئیں اور پھر دنیا نے وہ علم و عرفان کا سورج غروب ہوتے ہوئے دیکھا جس کی روشنی مانند سحر ہوا کرتی تھی؛
حال ہمارا کچھ ایسے تھا کہ جیسے ہم بزبان حال بیان کرتے ہوں
سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
تو پھر یہ کتاب سے بیگانگی کی یہ رسم جو اب ہر سو چھائی ہوئی ہے تو کیا ہم یوں سمجھ لیں کہ آنے والا کل اندھیروں کا ہوگا کہ کتاب کی مقدس روشنی ہمیں گوارا نہیں ہم نے جہاں کی کتاب کے تئیں وہ بے رخی بھی ملاحظہ کی کہ کتابیں تو سڑک کے کنارے کسی کیچڑ کے ڈھیر پر اپنی بے بسی کی داستان یوں سنا رہی تھیں؛ کہ ہم ان اوراق پر مشتمل ہیں کہ جو اندھیروں میں اجالے کی نوید سناتی ہیں جو بھٹکے ہوئے مسافر کو راہ دیکھاتی ہیں جو جہالت میں علم کا نور پھیلاتی ہیں جو ماضی کی امین ہیں حال کی گواہ شاہد ہین اور مستقبل کے لیے نوید رحمت و فلاح سناتی ہین پر ہم کیچڑ کے ڈھیر پر اور تمہارے قدموں میں پہننے والے جوتے شیشے کے فریم میں تو کیا چاہتے ہو یہی نا کہ اب جوتوں کی قدر و قیمت کتابوں سے اعلیٰ ہے تو کیوں تب نالاں ہوجاتے ہو جب یہی جوتے پڑھ جائین تو کیا غمگین ہوجانا۔
حال کیا کیا سنائیں ہم اپنی بے بسی و لاچاری کا کہ ہم طاق میں کب سے اس گھر کی الماری میں پڑی ہوئی ہیں جہاں کبھی ہماری ہی مہِک ہوا کرتی تھی پر اب تو ہمارا حال کچھ یوں ہوگیا کہ گرد ہماری جلد کو بوسیدہ بنائے جارہی ہے پر کوئی ایسا نہیں کہ ہماری جلد سے یہ گرد کی تہہ صاف کردیتا ہم اپنے نصیب پر اداس اور تم ہم سے بیگانہ ہوکر کیسی عزت و رفعت کے طالب ہو جس کا آنا ہمارے ہی سبب آسمانی صحائف میں بھی ہے اور دنیا کے علم و دانش کے مالک لوگوں کی تحقیق بھی یہی ہے
یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے
اک کتاب کیچڑ میں گر پڑی"
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں اُلجھے آنسو بلارہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں ایک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں
نئے نئے دائروں کی گردش میں اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں
صلہ، جزا، خوف، بے یقینی
اُمید، اِمکان، نا امیدی
ہزار خانوں میں بٹ گیا ہوں
اب ِاس سے پہلے کہ رات اپنی کمند ڈالے یہ سوچتا ہوں کہ لَوٹ جاؤں
عجب نہیں وہ کتاب اب بھی وہیں پڑی ہو
عجب نہیں آج بھی مری راہ دیکھتی ھو
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں اُلجھے آنسو
ہوا و حرص و ہوس کی سب گرد صاف کردیں
عجب نہیں میرے لفظ مجھ کو معاف کردیں
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
میرا شوق کتاب
سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
کتابوں کی دنیا سے محبت کا تعلق جو مجھے سب سے خوب صورت گاوہ سید مودودی اور ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا کتابوں کی بارگاہ میں رہنا اور پھر پوری علمی دنیا پر چھا جانا ہے اور موجود وقت میں جسٹس تقی عثمانی صاحب حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے والد صاحب مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ کا کتب خانہ جہاں ہزاروں کتابیں تھیں اور والد صاحب کو بارہا دیکھا ہے ان کتابوں کے درمیان اس لئے میری تربیت ہی ایسے ماحول میں ہوئی جسے ہم کتاب گھر یا کتاب محل کہہ سکتے ہیں؛ اور ان کتابوں کے درمیان بڑا ہونے والا بچہ کیسا ہوتا ہے بڑا ہوکر اس کی مفتی تقی عثمانی صاحب ہیں
یونہی بھلا دیتے ہو حد کرتے ہو
انسان ہوں تیری کتاب کا سبق تو نہیں
میرا بچپن تھا اور مجھے شوق مطالعہ ہوا صورت حال مطالعہ کتب سے کچھ یوں ہوئی کہ خاکسار کتابوں کا ہی ہوکر رہ گیا میرا بچپن مشکلات و مصائب کی نذر ہوکر رہ گیا پر کچھ کتابیں ہاتھ آئیں جن میں معارف القرآن سیرت مصطفی شریعت یا جہالت نفحت العرب تحذیر الناس عن الابتداء البدعہ جیسی کتابیں تھیں شراح محمدی نامی ایک کشمیری کتاب بھی تھی جسے میں نے کشمیری پڑھنا بھی سیکھ لیایہ جو زندگی کی کتاب ہے!
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے!
ایک مبلغ سے بچپن میں کتاب مانگی اس نے کچھ برا کہہ دیا اور میں نے طے کرلیا کہ کتابیں ہی میرے لئے اب سب کچھ ہیں دوران علمی کے زمانے میں جب کھانے پینے کے خرچے خود سے کرنے پڑھتے تھے میں نے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا کچھ پیسے بچ جاتے جن سے مہینے کے آخر پر کتاب خرید لاتا اب بھی حال ایسا ہے کہ کتاب کا نام یا ورق اچھا لگا تو اٹھا لی، پر واللہ تشفی نہیں ہوئی ہے جب کہ ایک اچھی خاصی تعداد کتابوں کی جمع ہوچکی ہے تو’’پر ہماری نسل نو اس سب سے لاتعلق کہ ایسا لگتا ہے کتابوں کا تذکرہ کرنا شاید اس شعر کے مصداق ہو یہاں
ﭼﯿﺨﯿﮟﺑﮭﯽﯾﮩﺎﮞﻏﻮﺭﺳﮯﺳُﻨﺘﺎﻧﮩﯿﮟﮐﻮﺋﯽ،
ﮐِﻦﻟﻮﮔﻮﮞﻣﯿﮟﺗﻢﺷﻌﺮﺳُﻨﺎﻧﮯﻧﮑﻞﺁﺋﮯ_______!!!
پر پچھلے کچھ سالوں سے ادبی انجمنوں میں دیکھا اور کچھ ارباب علم و دانش کے ہاں اب بھی شوق کتاب موجود ہے پر تعداد قلیل ہے، جن کی محبتیں قابل دید کہ مجھ جیسے طالب علم کو اپنی تصانیف کے تحائف سے نوازا جن کی تعداد اچھی خاصی ہے کاش وہ خوشبو میری نسل نو بھی محسوس کرتے جو کتابوں کے اوراق سے اٹھتی ہے؛ اور قلب و جان میں اک خوبصورت احساس پیدا کرتی ہے چلتے چلتے مجھے آغوش میں رہنا کتابوں کے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی حسیں جنت میں بیٹھا جنت کی لزت و چاشنی حاصل کر رہا ہوں کہ سوائے کتاب کے میں کیا میری اوقات کیا،، کتاب سے دوستی کیجئے، ملٹن کہتا ہے کہ ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کروانا ہے
الطاف جمیل ندوی پر پچھلے کچھ سالوں سے ادبی انجمنوں میں دیکھا اور کچھ ارباب علم و دانش کے ہاں اب بھی شوق کتاب موجود ہے پر تعداد قلیل ہے، جن کی محبتیں قابل دید کہ مجھ جیسے طالب علم کو اپنی تصانیف کے تحائف سے نوازا جن کی تعداد اچھی خاصی ہے کاش وہ خوشبو میری نسل نو بھی محسوس کرتے جو کتابوں کے اوراق سے اٹھتی ہے؛ اور قلب و جان میں اک خوبصورت احساس پیدا کرتی ہے چلتے چلتے مجھے آغوش میں رہنا کتابوں کے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی حسیں جنت میں بیٹھا جنت کی لزت و چاشنی حاصل کر رہا ہوں کہ سوائے کتاب کے میں کیا میری اوقات کیا،، کتاب سے دوستی کیجئے، ملٹن کہتا ہے کہ ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کروانا ہے۔