تسنیم فردوس
بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر نئی دہلی
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
"وقت اور سمجھ ایک ساتھ خوش قسمت لوگوں کو ملتے ہیں کیونکہ اکثر وقت پر سمجھ نہیں ہوتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا"
وقت گہرے سمندر میں گرا ہوا وہ موتی ہے جس کا دوبارہ ملنا نا ممکن ہے۔ ہماری زندگی میں وقت کی بہت اہمیت ہے اور ہمیں اسے اہمیت دینی بھی چاہئے کیونکہ وقت کا چوکا ہوا انسان زیادہ تر نا کام ہی رہتا ہے۔ وقت بہت طاقتور ہوتا ہے ایک لمحہ میں سب کچھ آباد بھی کر دیتا ہے اور برباد بھی۔
انسان کھوکے وقت کو پاتا نہیں کبھی
جو دم گزر گیا وہ آتا نہیں کبھی
وقت کے لغوی معنی زمانہ یا ہنگامہ کے ہیں۔وقت ایک گراں مایہ دولت ہے۔ اور یہ دولت تقاضا کرتی ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر انسان کی سستی یا بے پرواہی سے وقت ہاتھ سے نکل گیا تو یہ واپس نہیں آتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی وکامرانی ہمیشہ انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو وقت شناس اور اسکے قدردان ہوتے ہیں۔ اور ہاتھ پر ہاتھ دھرنے اور خیالی پلاؤ پکانے میں مگن رہنے والوں کے خیالوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اور نہ وقت کے ان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے "وقت از دست رفتہ وتیز ازکمان جستہ بازیناید "یعنی ہاتھ سے گیا وقت اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا۔
یہ حقیقت ہے کہ وقت برق رفتار ہوتا ہے اور گزار ہوا وقت پھر واپس نہیں آتا اور نہ ہی اس کا کوئی بدل ہوتا ہے اسلئے یہ انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے۔
اہلِ ہمت اپنی منزلیں پائیں گے
جو ہیں کاہل پیچھے رہ جائیں گے
وقت ہی زندگی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان کی زندگی اس وقت سے عبارت ہے جسے وہ پیدائش کی گھڑی سے لیکر آخری سانس تک گزارتا ہے۔ جب وقت کی اتنی زیادہ اہمیت ہے یہاں تک کہ وقت ہی کو زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے تو ایک مسلمان پر وقت کے اعتبار سے بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اسی لئے اسے چاہۓکہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھے اور ہمیشہ پیشِ نظر رکھے اور علم وادراک کے دائرے سے آگے بڑھ کر انہیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے۔
وقت اللّه رب العزت کی ایک ایسی نعمت ہے جو انسانی معاشرے میں یکساں طور پر امیر، غریب، عالم، جاہل، صغیر، کبیر سب کو ملی ہے۔ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سِل سے دی جاتی ہے کہ جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہرحال پگھلتی ہی جاتی ہے۔
گرد لالچ کی ہے کس قدر افکار پر
کون جانے کیا لکھا ہے وقت کی دیوار پر
جو لوگ وقت کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ صحراؤں کو گلشن بنا دیتے ہیں۔ وہ فضاؤں پر قبضہ کر سکتے ہیں وہ عناصر کو مسخر کر سکتے ہیں، وہ پہاڑوں کے جگر پاش کر سکتے ہیں۔ جو لوگ وقت ضائع کر دیتے ہیں وہ دین و دنیا دونوں اعتبار سے خسارے میں رہتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز وقت کو سمجھا جاتا ہے۔ اسکی قدروقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں۔ جس نے وقت ضائع کر دیا اس نے سب کچھ ضائع کر دیا۔
وقت دیتا ہے ہم کو سبق یہی
دوستوں غفلت میں نہ رہنا کبھی
وقت دولت سے بھی بڑہ کر قیمتی شے ہے۔ اگر دولت ضائع ہو جائے تو دوبارہ بھی مل سکتی ہے مگر ضائع شدہ وقت کبھی واپس نہیں مل سکتا۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ زندگی کے تمام معاملات اپنے صحیح اور مناسب وقت پر انجام دے لینا چاہیئے کیونکہ وقت گزر جاۓگا اور ہم وہیں کھڑے رہ جائیں گے۔ عموماً وقت کو بہت ظالم کہا جاتا ہے کیونکہ وقت کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وہ ہر لمحہ ہر پل بس گزرتا رہتا ہے۔ یہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے بھی جاتا ہے اور چھوڑ بھی جاتا ہے ۔
وقت رہتا نہیں ٹک کر
عادت اس کی آدمی سی ہے
آدمی کی فہم و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس فانی زندگی کے اوقات وادوار کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ گزارے، زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات پر یقین رکھے کہ کل روزِ قیامت میں اسکی ہر ہر چیز کا حساب ہوگا، اس سے ہر چیز کے بارے میں بازپرس ہوگی اور اسے اپنے ہر ہر قول و فعل جواب دینا ہے۔
یہ وقت بڑی قیمتی دولت ہے اس سے جو فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے وہ کر لیا جائے۔ آج صحت و تندرستی ہے، کل نہ معلوم کس بیماری کا شکار ہونا پڑجائے، آج زندگی ہے کل منوں مٹی کے نیچے مدفون ہونا ہے، آج فرصت ہے کل نہ معلوم کتنی مشغولتیں در پیش ہو جائیں۔ آج جوانی کا سنہرا دور ملا ہوا ہے، کل بڑھاپے میں نہ جانے کن احوال سے سابقہ پڑے اور کیا امراض و عوارض لگ جائیں۔ آج صاحبِ حیثیت ہیں، کل پتہ نہیں کیا حالت ہو جائے۔اس لیے جو کرنا ہے کر لیا جائے، جو کمانا ہے کما لیا جائے، جو فائدہ اٹھانا ہے اٹھا لیا جائے۔ بعد میں پچھتانے سے یہ بہتر ہے کہ انسان آج ہی قدر کرلے۔کیونکہ وقت سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں، انسان دنیا میں ترقی کی راہوں پر وقت کی قدر کۓبغیر گامزن نہیں ہوسکتا اگر آدمی کے پاس وقت نہیں تو وہ ایک سوئی بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور اگر وقت اور آدمی اپنی کوششیں بھی جاری رکھے تو سونے کی کان تک بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
چنانچہ جب انسان دنیا میں وقت کو غنیمت جان کر رضاۓالٰہی کے حصول میں لگ جاتا ہے تو وہ جنت جیسی ہمیشہ قائم رہنے والی نعمتوں کا مستحق قرار پاتا ہے، یہی انسان جب وقت کو فضول کاموں میں ضائع و برباد کر دیتا ہے تو جہنم کا ایندھن بن کے رہ جاتا ہے۔
الّلہ تعالٰی انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہیں گی اور انھیں کبھی زوال نہیں آۓگا۔ حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہے۔
وقت انسان پر ایسا بھی آتا ہے
راہ میں چھوڑ کر سایہ بھی چلا جاتا ہے
حضور ﷺ کا ارشاد پاک ہے "قیامت کے دن بندہ اس وقت تک اللّہ کی بارگاہ میں کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے۔
۱۔ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟
۲۔ اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟
۳۔ مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا؟
۴۔ اپنا جسم کہاں کھپاۓرکھا؟
اس کے برعکس ہم لوگ بیٹھکوں، چوپالوں، ہوٹلوں، اور نجی مجلسوں میں وقت گزاری کرتے ہیں۔ ہمارا کتنا ہی قیمتی وقت نکتہ چینی، غیبت اور بے تحاشہ سونے میں ضائع ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔حالانکہ زندگی کی ہر ہر گھڑی ہر ہر سیکنڈ اور منٹ کتنا قیمتی ہے ۔ مرتے وقت اس کی قدر معلوم ہوگی کہ ہائے ہم سے کتنا بڑا خزانہ فضول برباد ہوگیا۔ کاش ہم کو ایک دو منٹ کی اور مہلت مل جائے۔ افسوس اس وقت پچھتانے کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔
وقت کے ساتھ حالات بدل جاتے ہیں
یعنی تقدیر کے دن رات بدل جاتے ہیں
ہمارے معاشرے میں نو جوانوں کے قیمتی اوقات کے ضائع ہونے کا ایک بڑا سبب موبائل فون بنا ہوا ہے۔ اس کے ذریعےsms بھیجنے اور اس کے پروگراموں میں وقت گزاری کرنے کا ایک عام مزاج بن گیا ہے، گھنٹوں اس میں ضائع کر دینا، راتوں کو خراب کرنا ایک عام سی بات ہوگئ ہے۔ کبھی اس طرف خیال نہیں جاتا کہ میرا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ آج کا نو جوان موبائل کو لیکر ایک مجنونانہ کیفیت کا شکار ہو چکا ہے اور اس کے منفی اثرات سے پوری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ بس وہ اپنے مستقبل سے آنکھیں بند کۓخود کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنے استادوں و سر پرستوں اور والدین کو بھی اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں۔
الله رب العزت ان کے حال پر رحم فرماۓاور ان نادان بچوں کو فکر عطاء فرمائے کہ وہ اپنا مستقبل روشن و تابناک بنانے پر محنت کریں اور اپنے والدین کی گاڑھی کمائی کی قدر کریں۔آمین
وقت دکھائی نہیں دیتا مگر
دکھا بہت کچھ دیتا ہے