حیدرآباد،، 17 مارچ(انڈیا نیرٹیو)
تجارتی اعتبارسے جومقام ممبئی کوحاصل ہے،علمی اعتبارسے وہی مقام دکن کوحاصل ہے۔ یہ سرزمین ہمیشہ شدت پسندی سے پاک رہی ہے۔ رواداری، باہمی یکجہتی اور خدمت خلق کا سرچشمہ یہاں موجود ہے۔ یہ سب صوفیائے کرام کا مرہون منت ہے۔ ممتاز تاریخ داں پروفیسر ایس ایم عزیز الدین حسین، سابق ڈائریکٹر رضا لائبریری، رامپورنے شعبہ فارسی، مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی کے زیراہتمام اورقومی کونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی کے اشتراک سے دکن کی مشہورومعروف شخصیت راجہ دھن راجگیرسے موسوم دوسرے یادگاری توسیعی خطبے میں ان خیالات کا اظہارکیا۔
خطبہ کاعنوان”علوم وباہمی یکجہتی کے فروغ میں صوفیائے دکن کاحصہ: فارسی ماخذ کے حوالے سے“ تھا۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے تقریب کی صدارت کی۔ پروفیسرعزیزالدین نے کہا کہ تاریخ یہ کہتی ہے کہ محمد بن تغلق نے دارالخلافہ کو دہلی سے دولت آبادمنتقل کیا تھا جب کہ مستند ذرائع اور معتبر ماخذ اس بات کے شاہد ہیں کہ دہلی سے علما، ادبا، فضلااور صوفیائے کرام کی ایک بڑی جماعت نے بھی ہجرت کی تھی تاکہ اس سر زمین کو علوم و فنون، تہذیب و ثقافت اور شریعت و طریقت کا گہوارہ بنایا جاسکے اور یہ وہ اس تحریک میں پوری طرح کامیاب رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دکن کی یہ سرزمین آج بھی مساوات کا درس دے رہی ہے اور بے شمارخانقاہیں اس میں پیش پیش ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے اپنے صدارتی خطاب میں دکن کے چکی نامے، چرخے نامے، سہاگن نامے، لوری نامے کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ عوامی دبستان کی حیثیت رکھتا تھا جس نے عوام ہی خدمت خلق، دنیا کی بے ثباتی اور عظمت آدم کو فروغ دیا۔ ڈاکٹر سید عصمت جہاں نے استقبالیہ پیش کرتے ہوئے اس میموریل لیکچر کے اغراض و مقاصد پیش کیے۔ پروفیسرعزیزبانو، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات وہندوستانیات وکنوینر لیکچرنے شکریہ ادا کیا۔
پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، صدر شعبہ فارسی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروفیسرشیخ اشتیاق احمد، رجسٹراراور پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی کی مشترکہ مرتبہ کتاب ”کلیاتِ فارسی چندولعل شادان“ اورپروفیسر شاہد نوخیز اعظمی کی کتاب ”فارسی دیوانِ ملا وجہی“ کی رسم رونمائی پروفیسر سید عین الحسن کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ یہ دونوں تصانیف برسوں سے مخطوطہ ہی کی شکل میں موجودتھیں اوراپنے موضوع کے لحاظ سے بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔