ڈاکٹرجہاں گیر حسن
’’لوہے کو، لوہا کاٹتا ہے‘‘ اِس ضرب المثل سے ہندوستان کا تقریباً ہر باشعور فرد اچھی طرح واقف ہے اور اِسے اپنے روزمرہ کے بول چال میں بخوبی استعمال بھی کرتا ہے۔ اس ضرب المثل کا مطلب اور مفہوم یہ ہوتا ہےکہ ایک طاقتور اِنسان کو، دوسرا طاقتور انسان ہی زیر کرسکتا ہے،یا یہ کہ طاقتورانسان کامقابلہ طاقتور انسان ہی کرسکتا ہے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ اب تک یہ ضرب المثل صرف اور صرف مثبت اور مفیدانداز میں لیا جاتا رہا ہے اور اسے اچھی فکر کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن گزشتہ ایک دہائی سے اس کا معنی اور مفہوم ہی بدل دیا گیا ہے اور اسے مطلب بر آری اور مفادپرستی کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ یعنی پہلے بُرائی اور ظلم کے خاتمے کے لیے ایسا ضرب المثل بولا جاتا تھا لیکن آج بُرائی اور ظلم پر پردہ ڈالنے کے لیے ایساکیا جارہا ہے۔
بلفظ دیگرآج کے ملکی اور معاشرتی احوال کو دیکھتے ہوئے’’لوہےکو، لوہا کاٹتا ہے‘‘ کی جگہ ’’سانحے کو، سانحہ کاٹتا ہے‘‘ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔کیوں کہ ہمارے ملک میں آج کل یہی ہورہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جانے انجانے میں اگر کوئی انسانیت سوز سانحہ رونما ہوجائے توانسانیت اورقانون کے دائرےمیں رہکر ہی اُس کا حل نکالاجائے اور سانحے کو انجام دینے والےمجرمین کی یازیافتگی کے ساتھ اُس کی گرفت ہو اور اُس کو قانونی شکنجے میں کس دیا جائے تاکہ وہ آئندہ پھرسےکوئی المناک سانحہ انجام دینے کے لائق نہ رہے۔
’’سانحے کو، سانحہ کاٹتا ہے‘‘ کے تناظر میںبات کی جائے توآج کے ہندوستان سے اِس کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔لیکن سر دست ’’منی پور اور میوات سانحہ‘‘ کو اِس پس منظر میں دیکھاجاسکتا ہے،اور پھر اِسی تناظر میں چیتن سانحہ کوبھی دیکھنے کی ضرورت ہے جس کی زد پر نہ صرف ایک خاص طبقہ ہے بلکہ حقیقت میںہندوستان کی خوب صورتی اُس کی زد پرہے۔
اگر اِس طرح کے سانحات پر بروقت اور جلد از جلدقابو نہیں پائے گئے تو کوئی بعید نہیں کہ ہمارا ملک ہندوستان خانہ جنگی کا شکار ہوجائے،چناں چہ اس نوع کے سانحات میں ہرطرح کے ذاتی مفادسےاوپراُٹھنے اور ملکی مفاد کو فوقیت دینے کی سخت ضرورت ہے۔لیکن ایک سانحہ کے ذریعے دوسرے سانحہ پر پردہ ڈالنےجیسے فارمولے کو جس تیزی کے ساتھ فروغ دیا جارہا ہے اس کے باعث فی الحال کچھ خوشگوار منی پور حادثہ سے متعلق ہم سبھی لوگ بخوبی واقف ہوچکے ہیں کہ وہاںکس قدر انسانیت سوز حرکتیں کی گئیں اور کس پیمانے پرانتہائی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا۔
یہاں تک کہ منی پورمیں دو خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کو دِیکھ کرپوری دنیا حیران وششدر ہے۔ اس کے علاوہ چیتن سانحہ کے باعث بھی نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پرہندوستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے اور ہورہی ہے، چناں چہ ایمانداری اور وطن دوستی والی بات تو یہ تھی منی پور سانحہ کے ساتھ چیتن سانحہ کی بھی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہوتی اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ منی پور اور چیتن سانحہ سے متعلق صاف شفاف انکوائری کی بجائےمیوات بحران پیداکردیا گیا،تاکہ عوام الناس کی توجہ منی پور اور چیتن سانحہ حادثہ سے ہٹ جائے، اورآج یہی ہورہا ہے کہ میوات کی سونامی نےمنی پوراورچیتن سانحہ کوخس وخاشاک کی مانند اُڑادیا ہے،اوراِن دونوںسانحوں کے باعث جو لوگ ملکی تناظر میں ظالم وجابر کی صف میں سرفہرست نظر آرہےتھے وہ آج میوات سانحہ کے پردے میں مظلوم کی حیثیت سے پیش کیے جارہے ہیں اورمظلوم طبقہ کو ظالم بنادیاگیا ہے۔
یکے بعد دیگرے رونماہوئےمنی پور سانحہ، چیتن سانحہ اور اِس کے فوراً بعد میوات سانحہ بتاتا ہے کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ ایک منظم پلان کے تحت رونما کرایا گیا ہے۔کیوں کہ معتبراطلاعات اور خبررسان ایجنسی کے مطابق میوات میں ایک خاص طبقہ کے مذہبی جلوس نکالے جانے سے پہلے جس طرزپر متنفر اور مشتعل بیان پر مشتمل ویڈیوکووائرل کیا گیااس سےواضح ہوتا ہے کہ میوات سانحہ کا رونما ہونا فطری بات تھی۔ پھر یہ کہ خفیہ ایجنسی کی اطلاعات کے باوجود کہ میوات واطراف میں حالات کشیدہ ہوسکتے ہیں اور دو گروہوں میں ٹکراؤ کی صورتحال بن سکتی ہے، صوبائی حکومت اور صوبائی محکمہ پولیس کی طرف سے کوئی معقول اور تسلی بخش اقدام کا نہ کیا جانا چہ معنی دارد؟
اِن تمام فروگزاشتوں سے قطع نظر ہمارا کہنا ہے کہ جو لوگ خواہ سیاست سے متعلق ہیں یا سماج ومعاشرےسے منسلک ہیں، اگر وہ اِس خوش گمانی میں مبتلاہیں کہ وہ یکے بعد دیگرے سانحہ در سانحہ کی مدد سے اپنے کرتوتوں پردہ ڈال لےجائیں گے تو یہ اُن کی بڑی بھول اور خودفریبی ہے۔کیوںکہ اُنھیں معلوم ہونا چاہیےکہ ’’لوہے کو، لوہاکاٹتا ہے ‘‘ یہ تسلیم اِس لیے ہے کہ اس کے پیچھے مثبت فکر اور نیک ذہن کارفرماہے۔
لیکن رہی بات’’ سانحے کو، سانحہ کاٹتا ہے‘‘تویہ فارمولہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا کیوںکہ جس فارمولے کی بنیاد ہی دھوکہ اور فریب پرٹکی ہو،وہ بھلا کامیابی کی راہیں کیسےطے کرسکتا ہے۔اِس کے برخلاف’’ سانحے کو، سانحہ کاٹتا ہے‘‘ جیسا فارمولہ ملک و ملت میں اضطراب پیدا کرتا ہے،آپسی بھائی چارے پر کاری ضرب لگاتا ہے اورمحض سامنے والے کو ہی بلکہ اپنے اہل کو بھی نیست ونابود کیےبنا نہیں چھوڑتا۔
بلفظ دیگر سانحہ درسانحہ اور اُس کے ذریعے کسی مشن کی تکمیل ملک کی سالمیت کے لیے سخت خطرہ ہے۔ اِس لیے اِس طرح کی کج روی اور کج فکری اورسامنے والے کو متنفر ومشتعل کردینے والے اقدام کی بجائے کچھ ایسا پھونکاجائےکہ اُس کی سریلی آواز سےہمارا ملک بھی سلامت رہے، ہمارا سماج بھی پُرامن رہے اور ہمارے درمیان اتحاد ویکجہتی کی مثالیں بھی قائم رہیںاور یہ تبھی ممکن ہے جب کہ ہمارا مطمح نظر تخت وتاج نہیں بلکہ ملک وملت کی خیرخواہی ہو۔