ہمیں مجاہدین کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے جس سے پتہ چلے کہ ہمارے بڑوں نے اس ملک کے لیے کیا قربانیاں دی ہیں:ایم.ڈبلیو.انصاری
چمپارن ستیہ گرہ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ایک ناقابل فراموش سنگ میل ہے۔ 20ویں صدی کے ابتداء میں برطانوی پالیسیوں کی وجہ سے کسان بہت پریشان تھے اور بہار کے چمپارن علاقے میں حالات ناقابل برداشت ہو چکے تھے ۔ایسے وقت میں ایک مرد مجاہد آزادی کے لیے لڑنے کا عزم کرنے والے ہزاروں مقامی لوگوں کو لے کر کھڑا ہوا،جس کی کوششوں نے آزادی کی جدوجہد کے ڈھانچے کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا۔وہ کوئی اور نہیں بلکہ آزادی کے لئے جدجہد کرنے والے،اپنی قوم کو برطانوی راج کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے پیر محمد مونس تھے۔
پیر محمد مونس نے بھارت میں ہندو-مسلم کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کا ذمہ لیا۔ پیر محمد مونس29مئی 1882میں پیدا ہوئے،اس وقت ملک کے حالات ٹھیک نہیں تھے لیکن انہوں نے انقلاب کا راستہ بچپن میں ہی چنا اور ان کی پسند کا ہتھیار قلم تھا۔ انہوں نے مقامی کسانوں کے مسائل کوبہت ہی مضبوطی کے ساتھ اٹھایا۔جس نے برطانوی حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب شمالی بھارت میں اُردو، فارسی اور انگریزی بولی جاتی تھی، پیر محمد مونس نے اُردو کے ساتھ ساتھ ہندی کو ایک مقبول اور تحریری زبان بنانے کے لیے سخت محنت کی۔ انگریز ان کے موقف کو برداشت نہ کر سکے اور اس کے نتیجے میں انہیںایک خطرناک صحافی قرار دے دیا۔برطانوی دستاویزات کے مطابق
“Peer Mohammad Munis of Bettiah is a man of no position, and no means, a dangerous man, is practically a Badmaash”
’’پیر محمد مونس ایک خطرناک اور بدمعاش صحافی ہیں جنہوں نے اپنے قابل اعتراض لٹریچر کے ذریعے بہار کے چمپارن کے لوگوں کی پریشانیوں کو اجاگر کیا۔ اور مہاتما گاندھی کو چمپارن جانے کے لیے متاثر کیا‘‘۔
آج مہاتما گاندھی کو تو ہر کوئی جانتا ہے نصاب کی کتابوں میں مہاتما گاندھی کے بارے میں کئی اسباق بھی بچوں کو پڑھائے جاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ آزادی کی جدوجہد کرنے والے ،اس کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے پیر محمد مونس کو شاید کم ہی لوگ جانتے ہو۔کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی نے بہار کے چمپارن میں ہندی سیکھی تھی اور پیر محمد مونس نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہاں جانے سے پہلے گاندھی جی صرف اپنی مادری زبان گجراتی اور انگریزی جانتے تھے اور اپنے تمام ابتدائی نوٹ انگریزی میں لیتے تھے۔ اس کے بعد، جب ضرورت پیش آئی، مونس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ گاندھی جی ہندی سیکھیں اور جب بھی ضرورت ہو اسے استعمال کریں۔
جب گاندھی جی انگریزوں کے خلاف جدوجہد شروع کرنے کے لیے چمپارن آئے تو پیر محمد مونس پورے سفر میں ان کے ساتھ رہے۔ انہوں نے گاندھی جی کا بھرپور ساتھ دیا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانوی حکومت نے گاندھی کی مدد کرنے والے 32 افراد کی فہرست تیار کی تو اس میں پیر محمد مونس کا نام بھی نمایاں تھا ۔
مونس حقیقی معنوں میں مجاہد آزادی تھے اور اپنی پوری زندگی جنگ آزادی کے لیے وقف کر دی تھی۔ گاندھی جی بھی مونس کو دل و جان سے پیار کرتے تھے۔ درحقیقت، یہ مونس کے انقلابی الفاظ تھے جنہوں نے گاندھی کو چمپارن کی طرف کھینچا تھا۔قابل ذکر ہے کہ چمپارن کی طرف لوگوں کی توجہ دلانے کے لیے جتنا کام پیر محمد مونس نے کیا ہے، کسی اور نے اتنا کام نہیں کیا ہے۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس عظیم سپوت، مجاہد آزادی پیر محمد مونس کو آج بھلادیا گیا ۔ یہ وہ ہستی ہیں جن پر بڑی سے بڑی کتابیں لکھی جا سکتی تھیں،کیونکہ چمپارن ستیہ گرہ کا صحرا ان کے ہی سرجاتا ہے کیونکہ سب سے پہلے چمپارن ستیہ گرہ کا مدعہ انہوں نے ہی اٹھایاتھا ، لیکن آج لوگ ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں۔ آج ان کے یومِ پیدائش کے موقع پر ہم تمام باشندگان ہند کی طرف سے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور تمام بھارت واسیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ بھارت کے ان عظیم سپوت جنہوں نے بھارت کو آزاد کرانے اور بھارت کی ترقی کے لیے زندگی وقف کردی ،انہیں یاد رکھا جائے ان کے بارے میں مطالعہ کیا جائے تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ ہمارے بڑوں نے اس ملک کے لیے کیا قربانیاں دی ہیں۔