نئی دہلی،7؍جولائی
کسی بھی ملک میں قانون ہاتھ میں لے کر کسی کو قتل کرنا غیر قانونی ہے اور ایسا کرنے والا شریعت کے مطابق سخت سزا کا مستحق ہے،چاہے وہ پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔ سنّی نظریے کے سب سے بڑے مذہبی رہنما مانے جانے والے اعلیٰ حضرت کا 1906 میں دیا گیا یہ فتوی ادے پور کے واقعے کے بعد ماہنامہ اعلیٰ میں شائع ہوا ہے۔ ماہنامہ ہر ماہ درگاہ اعلیٰ حضرت سے شائع ہوتا ہے۔
جس کے ایڈیٹر درگاہ کے سربراہ مولانا سبحان رضا خان عرف سبحانی میاں ہیں۔ جولائی کے مہینے میں اعلیٰ حضرت کا فتویٰ مفتی سلیم نوری نے تحریر کیا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ 1906 میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی سے حج کے سفر کے دوران اہل عرب نے فتویٰ طلب کیا تھا کہ کیا گستاخ رسول کو قتل کیا جائے؟
اعلیٰ حضرت نے شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ناجائز کہا تھا۔ فتوے میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی اسلامی یا غیر اسلامی ملک میں ایسے شخص کو سزا دینے کا حق صرف اس ملک کے شہنشاہ یا عدالت کو ہے۔ ماہنامہ میں شائع ہونے والے مضمون میں اعلیٰ حضرت کے فتویٰ کی بنیاد پر لکھا گیا ہے کہ بیرونی نعروں اور خوفناک افکار سے متاثر ہو کر نبی کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی جدائی کو ثواب سمجھنا ناجائز ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک جرم ہے اور جو بھی شخص شریعت کے مطابق مجرم ہے اسے عدالت سے سزا ملنی چاہیے۔
اعلیٰ حضرت کے فتویٰ کے مطابق جمہوری ممالک میں جرم کرنے والے کے جرم سے نفرت کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ عام لوگوں کو اس کے ساتھ رہنے سے بچائیں اور اسے عدلیہ کے ذریعے سزا دلانے کی کوشش کریں۔ ایک اسلامی ملک میں جہاں توہین رسالت کی سزا موت ہے، اگر کوئی عام آدمی بھی کسی کو قتل کر دے تو اسے قاتل اور مجرم سمجھا جائے اور حکومت اور عدالت کے ذریعے سزا دی جائے۔ مفتی سلیم نوری نے مضمون میں لکھا ہے کہ 'سر تن سے یہودا' کے نعرے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت کو امن اور سنت کا علمبردار قرار دیا گیا ہے۔