Urdu News

ام المومنین غمگسارِرسول حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

تاریخ کا رخ بدلنے میں جن خواتین نے اہم کردارسرانجام دیا ہے ان میں سرفہرست اور سنہری حروف سے لکھا گیا مقدس اسم گرامی ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کابھی ہے۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبری عرب کی معزز ترین اور دولت مند خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فضل اور ایمان و ایقان میں بھی نمایاں مقام رکھتی تھیں ۔

شجرہ نسب

سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپؓ کا نسب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم   کے نسب سے قصی میں مل جاتا ہے۔ آپ ؓ کی کنیت ام ہند ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں۔

(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکرازواج مطہرات)

رب کا سلام

صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ کے رسول!(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا۔

(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،باب فضائل خدیجہ ام المومنین رضی اللہ تعالی عنھا)

افضل ترین جنتی عورتوں میں شمار

 مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالی عنہا،سیدہ فاطمہ بنت محمدرضی اللہ تعالی عنہا،،حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالی عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالی عنہا امراءۃ فرعون ہیں۔(مسندامام احمدبن حنبل،مسند عبداللہ بن عباس،ج۱،ص۸۷۴)

سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کی تجارت میں دوگنانفع

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا ہر جگہ چرچا تھا حتی کہ مشرکین مکہ بھی انہیں الامین والصادق سے یاد کرتے، آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے کاروبار کے لئے یکتائے روزگار کو منتخب فرمایا اور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیغام پہنچایا کہ آپ سیدہ خدیجۃ الکبریؓ کا مال ِ تجارت لے کر شام جائیں اور منافع میں جو مناسب خیال فرمائیں لے لیں۔

 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پیشکش کو بمشورہ ابوطالب قبول فرمالیا۔ سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے غلام میسرہ کو بغرض خدمت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ کردیا۔

 حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مال بصرہ میں فروخت کرکے دوگنا نفع حاصل کیا نیز قافلے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت سے بہت نفع ہوا جب قافلہ واپس ہوا تو سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دیکھا کہ دو فرشتے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کنا ں ہیں نیزدوران سفر کے خوارق نے سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آپ کاگرویدہ کردیا۔

(مدارج النبوۃ،قسم دوم،باب دوم درکفالت عبدالمطلب…الخ،ج۲،ص۷۲)

سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح

ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبر یٰ رضی اللہ عنھا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ تعالی عنہاسے نکاح کے خواہشمندتھے لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہانے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ تعالی عنہانے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا۔ سردار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اپنے چچا ابوطالب، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہما حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر روؤسا کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا۔

 (مدارج النبوت،قسم دوم،باب دوم درکفالت عبدالمطلب…الخ،ج۲،ص۷۲)

بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔(الطبقات الکبری لابن سعد،تسمیۃ النساء…الخ،ذکرخدیجۃ بنت خویلد،ج۸،ص ۳۱)

جب تک آپ رضی اللہ تعالی عنہاحیات رہیں آپ کی موجودگی میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،باب فضائل خدیجۃ ام المومنین رضی اللہ تعالی عنھا،ص۴۲۳۱)

غم گسار بیوی

 غارِ حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم میں وحی لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا پڑھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ما انا بقاریمیں نہیں پڑھتااس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اپنی آغوش میں لے کر بھینچاپھرچھوڑ کر دوبارہ کہا: پڑھئے، میں نے کہا: میں نہیں پڑھتا،جبرائیل علیہ السلام نے آغوش میں لے کربھینچاپھرچھوڑکر کہا۔

اِقرا بِاسمِ ربِ الذِی خلق (۱)خلق الاِنسان مِن علق(۲)اِقرا و رب الاکرم(۳)الذِی علم بِالقلمِ(۴)علم الاِنسان ما لم یعلم(۵)(پ۰۳،سورۃالعلق)

اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طبیعت بے حد متاثِر ہوئی گھر واپسی پر سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:  زملونی زملونی مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ۔

سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم انور پر کمبل ڈالا اور چہرہ انور پر سرد پانی کے چھینٹے دیئے تاکہ خشیت کی کیفیت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سارا حال بیان فرمایا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اچھا ہی فرمائے گاکیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی فرماتے، عیال کا بوجھ اٹھاتے، ریاضت و مجاہدہ کرتے، مہمان نوازی فرماتے، بیکسوں اور مجبوروں کی دستگیری کرتے، محتاجوں اور غریبوں کے ساتھ بھلائی کرتے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے، لوگوں کی سچائی میں انکی مدد اور ان کی برائی سے حذر فرماتے ہیں، یتیموں کو پناہ دیتے ہیں سچ بولتے ہیں اور امانتیں ادا فرماتے ہیں۔ سیدہ رضی اللہ تعالی عنہانے ان باتوں سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی و اطمینان دلایا کفار قریش کی تکذیب سے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جو غم اٹھاتے تھے وہ سب سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجاتے تھے اور جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی۔(مدارج النبوت،قسم دوم،باب سوم دربدؤالوحی وثبوت نبوت،باب دوم درذکرازواج مطہرات)

سابق الایمان

 مذہب جمہور پر سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔ کیونکہ جب سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم غارحرا سے تشریف لائے اور ان کو نزول وحی کی خبر دی تو وہ ایمان لائیں۔ بعض کہتے ہیں ان کے بعد سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لائے بعض کہتے ہیں سب سے پہلے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لائے اس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر شریف دس سال کی تھی۔ شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں۔ کہ سب سے زیادہ محتاط اور موزوں تر یہ ہے کہ آزاد مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بچوں اور نو عمروں میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ عورتوں میں سیدتنا خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اور موالی میں زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ اور غلاموں میں سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لائے۔

(مدارج النبوت،قسم دوم،باب سوم دربدؤالوحی وثبوت نبوت)

سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی فراخدلی

حضورصلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا: اللہ کی قسم!خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللہ تعالی نے مجھے اولادعطافرمائی۔(شرح العلامہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ،حضرت خدیجۃ ام المومنین رضی اللہ عنہا)

اولادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے ہوئی۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پیدا ہوئے۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہن ہیں۔

(السیرالنبوی لابن ہشام)

آپ ؓ کے وصال کے بعدذکر خیر

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم  حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سہیلیاں تھیں۔

(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل خدیجہ ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا)

ام المؤمنین کا وصال

 آپ رضی اللہ تعالی عنہا تقریبا پچیس سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریک حیات رہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہاکا وصال بعثت کے دسویں سال ماہ ِ رمضان میں ہوا۔ اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ تعالی عنہاکی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی۔ اس سانحہ پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے۔(مدارج النبوت)

ام المؤمنین رضی اللہ عنھا کوحفیظ جالندھری رحمۃا للہ علیہ نے اپنے اشعار میں اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔

وہ ام المسلمیں جو مادرِ گیتی کی عزت ہے

وہ ام المسلمیں قدموں کے نیچے جس کے جنت ہے

خدیجہ طاہِرہ یعنی نبی کی باوفا بی بی

شریکِ راحت و اندوہ پابند رضا بی بی

دیارِ جاودانی کی طرف راہی ہوئیں وہ بھی

گئیں دنیا سے آخر سوئے فردوسِ بریں وہ بھی

Recommended