ڈاکٹر ساحل بھارتی
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکا مانناہے کہ جمہوری طور پر منتخب ہندوستانی پارلیمنٹ ان کے حق میں نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ تمام مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے (جس میں اعلیٰ اور پسماندہ طبقات دونوں شامل ہیں) اور ان کی ذاتی اور سماجی اقدار کی دیکھ بھال کرتی ہے، جو اسلامی شرعی قانون کے ذریعہ تجویز کی گئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرہ ذات پات، فرقہ اور نسل کی بنیاد پر مسالک اور فرقوں میں بٹا ہوا ہے۔ پسماندہ (دلت اور قبائلی) مسلمانوں کی نامناسب نمائندگی کی وجہ سے پرسنل لا بورڈ کو اپنی تنظیم میں استحکام کا احساس نہیں ہے۔ بورڈ کا چیئرمین ہمیشہ دیوبندی / ندوی مکتب سے آتا ہے جو کہ سب سے زیادہ بااثر اور غالب ہے، حالانکہ وہ سنیوں کی صوفی برادری کے مقابلے میں تعداد میں کم ہیں۔ مزید برآں، بورڈ کا وائس چیئرمین ہمیشہ شیعہ فرقے سے ہوتا ہے، حالانکہ ان کی تعداد سنی فرقے کے سب سے چھوٹے فرقے کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے، مگر نظریاتی طور پر شیعہ سنیوں کے برابر سمجھے جاتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پسماندہ کے مقامی مسلمانوں کی زبان، تہذیب اور ثقافت ہندوستانی سرزمین کے دوسرے باشندوں کی طرح ہے، لیکن اعلیٰ طبقات کے علماء اسے غیر اسلامی اور ہندوتوا رواج قرار دیتے آئے ہیں۔ اعلیٰ طبقات کے علماء اپنی عربی۔ ایرانی ثقافت کو ہندوستان پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کی ذات پات کی تقسیم سے آگاہ ہے جیسا کہ پرسنل لا کی شائع کردہ کتاب 'مجموعہ قوانین اسلامی' میں شادی سے متعلق ایک باب ہے جس میں نسلی، اونچ نیچ،ملکی-غیر ملکی طبقات کو تسلیم کیا گیا ہے اور نچلی واونچی ذات کے درمیان شادی کو غیر اخلاقی سمجھا گیا ہے۔
مزید برآں،مسلم پرسنل لا خواتین ونگ بھیہے جو صرف اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو شامل کرتا ہے۔ مسلم پرسنل لا میں جمہوریت کا مکمل فقدان ہے، عہدیداروں کی تقرریاں وراثت اور نسل کی بنیاد پر کی جاتی ہیں اور بعض اوقات عرب۔ ایرانی نسل کے مسلمانوں کے قریبی رشتہ داروں کو کسی بھی قسم کے انتخابات یا جمہوری نظام کو نظر انداز کرتے ہوئے تقرری عمل میں آتی ہے۔یہ امتیازی سلوک قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے اور یہ ظاہر ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈمسلمانوں کے تمام طبقات کی نمائندگی نہیں کرتا۔