"نئی نسل کی معتبر شاعرہ فوزیہ ربابؔ"
✍️ رضوان الدین فاروقی
اردو شاعری کے وسیع تر کینوس پر ادھر دو دہائیوں میں جن شاعرات نے اپنے شعری وجود سے فضا کو مشک بار کیا ہے ان کی فہرست اگرچہ طویل ہے پھر بھی کچھ شاعرات ایسی ہیں جنہوں نے اپنی فکری توانائی سے غزل کے وہ رنگ بکھیرے ہیں جو ہمارے عہد کی یقیناً شناخت کہے جا سکتے ہیں ان شاعرات کے بنائے ہوئے راستے پر جن شاعرات نے آگے کا سفر طے کیا ان میں ایک نمایاں نام فوزیہ رباب کا بھی ہے۔ فوزیہ رباب کا تعلق گجرات سے بھی ہے اور یو پی سے بھی کہ ان کی تعلیم و تربیت احمد آباد میں ہوئی اور زندگی کا اعتبار بجنور، یوپی میں حاصل ہوا کہ ان کے شوہر کا تعلق روہیل کھنڈ کے اسی دیار سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب معاشی ضرورتوں کے تحت یہ ایک عرصے سے گوا میں مقیم ہیں۔
جہاں تک فوزیہ رباب کے شعری سروکار کا تعلق ہے میرے پیشِ نظر ان کا شعری مجموعہ ’’آنکھوں کے اس پار‘‘ ہے جس میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی ۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے لگتا ہے کہ انہوں اس میدان میں پوری سنجیدگی کے ساتھ قدم رکھا ہے اور سنبھل سنبھل کر یہاں تک کا سفر طے کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے یہاں زبان و بیان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ان کا تعلق یقیناً ایک علمی و ادبی گھرانے سے رہا ہے۔ ویسے ادھر جو شاعری کے نئے رجحانات ہمارے سامنے آرہے ہیں ان کی تازگی اور لفظوں کے نشست و برخاست کودیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شاعری اس شاعری سے کسی حد تک الگ ہے جسے ہم بیسویں صدی کے ڈوبتے سورج کے ساتھ ہی چھوڑ آئے۔ حیرت ہوتی ہے جب نئی نسل کے شاعروں کو ہم دیکھتے ہیں جو ہمارے روز مرہ کی لفظیات سے پرانے موضوعات کو اس طرح کاغذ پر اتار دیتے ہیں کہ بجز آفرین کہنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ فوزیہ رباب کی شاعری کے تیور بھی کم و بیش یہی ہیں کہ ان کے یہاں بھی لفظوں کو برتنے کا نظام اور مضمون آفرینی کا اہتمام وہی ہے جو ہمارے رواں لمحوں کی دین ہے۔
تمہیں میں یاد کروں اور بے حساب کروں
تمہارے نام نیا پھر سے انتساب کروں
وہ مجھ کو دیکھ کے دوڑا ہوا چلا آئے
میں اپنے آپ کو کچھ اس طرح سراب کروں
مانگتا ہے کوئی حساب ربابؔ
کردے آج اس کو لاجواب ربابؔ
میری راہوں میں صرف خار ہی خار
ان کی راہوں میں بس گلاب ربابؔ
زلف محبت برہم برہم می رقصم
وجد میں ہے پھر چشم پرنم می رقصم
میں نے اب نیند کو ہی چشم بدر کر ڈالا
خواب آیا بھی جو اس بار تو بے گھر ہوگا
مری حسرتوں کا خیال کر مرے سانولے
مجھے اپنے غم میں نڈھال کر مرے سانولے
میں رباب پوچھتی رہ گئی کہاں جائے گا
مجھے قیدِ ہجر میں ڈال کر مرے سانولے
صاحبان نقد و نظر کا خیال ہے کہ شاعری یا تو اچھی ہوتی ہے یا خراب۔ بڑی چھوٹی اس میں کچھ نہیں ہے اس حوالے سے بھی اگر ہم فوزیہ رباب کی شاعری کا جائزہ لیں تو زیر تذکرہ مجموعےمیں اچھی شاعری کے نمونے جگہ جگہ ملتے ہیں ۔مثلاً:
اب مجھے حیرت نہیں ہوتی سنو
میں تمہارے بعد پتھر ہوگئی
تری آنے کی خبر کا ہے کمال
آئینے سے بن رہی ہے ان دنوں
اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہوں پھر سے آج
سوچ رہی ہوں تجھ کو ہر دم شہزادے
فوزیہ رباب نے اپنی غزلوں میں مختلف ردیفوں کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک لفظ ’’شہزادے‘‘ بار بار کبھی استعارے کے طور پر آتا ہے اور کبھی براہِ راست مخاطبے کے طور پر اور ہر جگہ نئے مفاہیم کی علامت بن جاتا ہے:
لوٹ رہے ہو ہاتھ چھڑا کر شہزادے
کیا ملتا ہے مجھ کو رلا کر شہزادے
یوں ہی دکھ ہوجاویں گے کم شہزادے
آجا سکھ کے خواب بنیں ہم شہزادے
مری روح میں تیری یاد اترتی ہے
ہولے ہولے مدھم مدھم شہزادے
سونا چاہت ہیرا من شہزادے کا
عشق سراپا پیراہن شہزادے کا
ان کو آنسو مت کہنا اچھے لوگو
آنکھ میں اترا ہے ساون شہزادے کا
فوزیہ رباب کے اس مجموعے میں غزلوں کے علاوہ کچھ نظمیں بھی ہیں جو فکری توانائی سے بھرپور ہیں اور پڑھتے وقت قاری کو اپنی گرفت میں لیے رہتی ہیں۔ عصری مسائل سے عبارت یہ نظمیں یقیناً ایسی ہیں کہ جن پر باقاعدہ گفتگو ہونا چاہیے لیکن یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے ورنہ ’’میرا خواب تھیں جو محبتیں، بیٹیاں، قلم اٹھاؤ،سنو برمی مسلمانو وغیرہ وہ نظمیں ہیں جو ہمارے اذہان کو کہیں نہ کہیں اور جھنجوڑتی ہیں اور ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور اسی کیفیت سے لبریز شاعری فوزیہ رباب کو اپنے ہم عصروں میں معتبر کرتی
ہے۔