Urdu News

راجندر سنگھ بیدی کیوں ہیں اردو افسانہ نگاری کے تاج کا نگینہ؟

افسانہ نگاروں میں راجندر سنگھ بیدی ایک بڑا نام ہے

 راجندر سنگھ بیدی کیوں ہیں اردو افسانہ نگاری کے تاج کا نگینہ؟ 


افسانہ نگاروں میں راجندر سنگھ بیدی ایک بڑا نام ہے۔ پریم چند کے بعد جن لوگوں نے افسانہ نگاری کو بحسن وخوبی،فنی اور لسانی دونوں اعتبار سے آگے بڑھایا ان میں ایک نام بیدی کا بھی آتا ہے۔ بیدی نے افسانہ نگاری کے کینوس کو اور بھی وسیع کیا ہے جس میں ان کے موضوعات کا انتخاب اور Suspense   دونوں شامل ہیں، جو کہ اس فن کے لیے روز اوّل ہی سے اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی تغیر
 پذ یر ہے اور جب تک تبد یلیاں ہوتی رہیں گی زندگی اپنی تمام تر یکسانیت کے باوجود واقعات کے انو کھے پن اور ندرت کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی رہے گی اور یہ ایک ایسا طویل کینوس ہے جو اپنے اندر اتفاقات اور وقت کے دباؤ، امکانات، فکری گرفت اور رویوں کی بے کیفی، ان سب کو سمیٹ لیتا ہے۔ ایک ایسی تصویر سامنے ابھر کر آتی ہے کہ انسان دیکھتا رہ جاتا ہے۔ جب ہم بیدی کی کہانیاں پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان اہم جزیات سے اچھی طرح واقف تھے۔اس لیے اپنی کہانیوں میں انھوں نے منظر اور عبادتوں کی جگہ واقعات اور مسائل حیات کو اہمیت دی۔ ظاہر ہے کہ مسائل حیات بہت ہی پیچیدہ ہیں۔ اس میں کشمکش اور پر یچ لہریں بھی ہیں۔ لہذا یہ لازمی ہے کہ کہانیوں میں بھی کشکش اور پیچیدگی پیدا ہو۔ یہی چیز بیدی کے افسانوں کوحسن عطا کرتی ہے۔ جب یہ عضر کسی کہانی میں موجود ہوتا ہے تو وہاں تنوع پیدا ہو جا تا ہے۔ 
            بیدی کے افسانوں میں ایسی روانی یا ایسا بہاؤ نہیں کہ قاری جزیات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی رو میں بہ جائے۔ بلکہ ہر موڑ پر تاثر اور جلوہ آرائی کی کارفرمائی ملتی ہے۔ صرف تخیل اور فرضی واقعات کی پیش کش ہی کا نام افسانہ نگاری نہیں اور اس تکنیک سے بیدی بخوبی واقف ہیں۔ان کی کہانیاں، دس منٹ بارش میں، ایک باپ بکاؤ ہے، پان شاپ وغیرہ اسی ذیل کی کہانیاں ہیں، جہاں زندگی اپنی تمام تر خامیوں، خوبیوں اور گہرائیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ 
           افسانوں میں جذبات نگاری کو بھی ایک اہم جز تسلیم کیا جا تا ہے۔ بیدی کی کہانیوں میں جذ بات کی جو عکاسی ملتی ہے اس میں گہرے محسوسات کاعمل و دخل ہوتا ہے۔ ایسانہیں کہ قارئین کے جذبات (Sentirments) کا استحصال ہی مقصد بن جائے۔ اگر یہ مقصد ہوتو پھر کوئی بھی افسانہ نگار فن کی کسوٹی پر اس سے بھی بڑھ کر قارئین کے مذاق پر پورا نہیں اتر سکتا اور دوسرانقصان یہ ہوگا کہ کہانی غیرفطری ہو جائے گی جس کا اپنا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بیدی اسی وجہ سے کرشن چندر کی طرح کہانی کے بے جا پھیلا ؤ اور عبارت آرائی سے اتفاق نہیں کرتے۔ کیونکہ انھیں اس کا انجام معلوم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہنگامی حالات سے بھی بیدی نے دامن کو بچائے رکھا۔
                جب ۷۴۹۱ء کا فساد ہوا تو تمام قلم کاروں نے”براہ راست“ اسے موضوع بنایا مگر بیدی نے واقعات و حادثات کو افسانوں کے کردار میں آہستہ روی کے ساتھ ضم کرنے کے بعد ہی اسے پیش کیااور دھیرے دھیرے سچو یشن اور پلاٹ پر اس طرح پھیلایا کہ یہ حادثات کہانی کے اجز ابن گئے۔
یہ تو واضح ہے کہ ترقی پسندوں میں بیدی کا بھی نام آ تا ہے مگر دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح وہ سختی اور تیکھے پن کے ساتھ سماجی حقیقت کو پیش نہیں کرتے بلکہ رمز و ا یما کی کیفیت افسانوں پر حاوی رہتی ہے۔ ایک مثال دیکھیے: 
          ”دس روپے؟ کیرتی نے کہا۔ 
           ہاں تمہیں بتایا نا، میرے لیے یہ سب بیکار ہے۔
         ”ان سے تو۔“اور کیرتی نے جملہ پورا کیا، اس کے اندر گویائی، الفاظ سب تھک تھک گئے تھے۔ پر مطلب صاف تھا مگر سمجھ گیا۔”اس سے تو بول بھی نہ آئے گی۔“
        ”دوا کا خرچ بھی نہ پورا ہوگا‘‘روٹی بھی نہ چلے گی۔“ 
       یہ احساس جو بیدی کے افسانوں کا جزو بن گیا ہے دراصل وہ اس نئے سماج کا احساس ہے۔ اس احساس میں حیرت، طنر اور حسن کا ایک خوبصورت امتزاج ہے جس سے کہانی میں نئی معنویت پیدا ہوگئی ہے۔
        بیدی کے افسانوں میں طنر کا بھی حسین پہلو نظر آ تاہے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں بڑی خوشی اسلوبی اور نہایت لطیف طریقے سے اس پہلو کو پیش کیا ہے۔ اس طنز میں شکست خوردگی کا احساس بھی ہے تبسم زیرلب بھی اور ایک ایسی چوٹ جو پیشہ جدوجہد پرا کساتی رہتی ہے اور یہ پیغام بھی دیتی ہے:
                    جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی
            اس میں کامیابی اور نا کامی بھی ہے اور تاریخ کی بے بسی کا احساس بھی:
 ِِ        …کچھ گندم اور ماش کی دال دے دوسکھی کی ماں کو… کب سے بیٹھی ہے بیچاری (تلادان)۔“
           کہا جاتا ہے کہ جنس موضوع کے طور پر روز ازل سے کسی نہ کسی روپ میں انسانی زندگی اور سماج کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ یہ جنس نگاری بیدی کے یہاں بھی ہے۔ مگر انھوں نے ادب کے تقدس کو پامال نہیں کیا ہے۔ان کے طرز بیان میں پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کے یہاں یہ سب جنسی تلذذ کے بجائے فطری تقاضے کو پورا کرتے ہیں۔ اس لیے تو ہمیں ان کے یہاں اس طہارت کا بھی احساس ہوتا ہے جو ذ ہن کوتخلیق آدم تک لے جا تا ہے۔ اور یہیں پر بیدی بقول سید محمد عقیل رضوی منٹو اور عصمت چغتائی سے بالکل منفرد ہوکر اپنے انو کھے رنگ کا احساس دلاتے ہیں۔
           کبھی بھی افسانہ نگاروں کے یہاں یہ مسئلہ پیدا ہو جا تا ہے کہ واقعات کو اہمیت دے یا کرداروں کو، جب کہ دونوں ضروری ہیں۔ بیدی کے یہاں ان کی کہانیاں ان کے تراشیدہ کرداروں کے حرکت وعمل کے ذریعہ اپنی صورتیں بدلتے رہتے ہیں۔ بیدی کے کردار وقتی اور لمحاتی جذباتیت سے بالکل الگ رہتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں کر دار اور واقعات کی ایسی ہم آہنگی ہوتی ہے کہ یہ کہنا مشکل ہو جا تا ہے کہ واقعے سے کر دار آگے بڑھ رہے ہیں یا کر دار ہی واقعے کو آ گے بڑھانے میں مددکرر ہے ہیں۔ بقول محمد حسن بیدی نے بھی بعض افسانوں میں نا گہانی حادثات سے کام لیا ہے جو واقعات اور کرداروں کو اچانک ایک نیا روپ دے دیتے ہیں جس سے کہانی کو ایک نیا موڑمل جا تا ہے جب کہ ان کے یہاں براہ راست اچھے اور برے کرداروں کا ٹکر اؤ بہت کم ہے۔
           بیدی کے فن میں رمزیت، تہہ داری اور آہستہ روی کا احساس ہوتا ہے اور جب تک کسی فن کار میں نفسیاتی دروں بینی کا عنصر نہ ہو، تہہ داری یا رمزیت پیدانہیں ہوسکتی۔ اس کی مثال چند جملوں میں ہماری ہندوستانی عورتوں کی روایتی بے کسی کے بیان میں مل جاتی ہے۔
’’لا جوتی“ کے چند جملے دیکھیے:”سیکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی۔ لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں… ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک انھیں نہیں پہچانتے… اور اپنے بھائی کو جم غفیر میں دکھ کر آخری باراتنا کہتی۔ تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلا یا تھارے، بہاری چلا دینا چاہتا۔ پر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا جو کوئی حقیقت نہیں رکھتا اورجوصرف ہماری نظر کا دھوکا ہے     … 
  

Recommended