Urdu News

اردو تنقید کے بانی:علامہ شبلی نعمانی

علامہ شبلی نعمانی

آج ۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ کو اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں،عظیم مورخ، عالم دین، سیاسی مفکر اور فارسی شاعر، اپنی تنقیدی کتاب’ شعر العجم‘ کے لئے مشہور” علّامہ شبلی نعمانی صاحب “ کا یومِ وفات ہے۔

محمّد شبلی نام تھا ۔ شبلیؔ تخلص کرتے تھے ۔ موضوع بنڈول ضلع اعظم گڑھ میں ۳؍جون ۱۸۵۷ میں پیدا ہوئے۔ بڑے بڑے فاضل استادوں سے تعلیم پائی کئی سال تک علی گڑھ کالج میں پروفیسر رہے ۔ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی اور اپنا سفرنامہ قلم بند کیا انگریزی گورنمنٹ سے شمس العلما کا خطاب پایا۔ ” ندوۃ المصنفین“ انہی کی یادگار میں قائم کیا گیا ہے جس نے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے متعلق نہایت اہم اور نہایت قابل قدر کتابیں شائع کی ہیں ۔

۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ کو انتقال ہوا۔

“شعرالعجم”پانچ جلدوں میں فارسی شاعروں کی مبسوط تاریخ ہے۔ “المامون”،”سیرۃ النعمان”،”سوانح مولانا روم”،”الغزالی” ان کی مشہور کتابیں ہیں ۔اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا تک مولانا کے نام کو زندہ رکھیں گے ۔نظم شبلی ان کی نظموں کا مختصر سا مجموعہ ہے ۔سب سے آخری تصنیف “سیرۃ النبیؐ” ہے جو ان کا شاہکارسمجھی جاتی ہے۔

عظیم مورخ علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت:

پوچھتے کیا ہو جو حال شبِ تنہائی تھا

رخصت صبر تھی یا ترکِ شکیبائی تھا

شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا

وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا

۔۔۔۔۔۔

یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے

گُلِ تر کو ہوسِ خار نہ ہونے پائے

اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ

شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے

Recommended