Urdu News

اردو زبان اجنبی ہوتی جارہی ہے

جملہ، جس میں اُردو کے تمام حروف تہجی موجود

نجم العالم(شکشا رتن ایوارڈ یافتہ)

نومبر09علا مہ اقبال کا یوم ولادت ہے اور اس دن عالمی پیمانے پر یوم اردو منایا جاتا ہے، گزشتہ سال بھی منایا گیا۔ اس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ اردو زبان اہل اردو کے درمیان اجنبی ہوتی جارہی ہے اور اس کی تہذیبی و ثقافتی شناخت باقی نہیں بچی ہے۔ تھوڑی بہت اگر بچی ہے بھی تو اسے چند مدارس کے بچے ہی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہندوستان میں ہماری کوتاہیوں کے سبب اردو زبان روز بروز زوال کی جانب گامزن ہے۔ اس کے لیے خود اہل اردو ذمہ دار ہیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اقلیتی اسکولوں اور کالجوں میں اردو پڑھنے اور پڑھانے کا جو سٹم ( طریقہ کار) ہے، وہ تقریبا نہیں” کے برابر ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ اردو سماج میں اردو اخبار خرید کر پڑھنے کا چلن تقریبا ختم ہو گیا ہے۔ نئی نسل اور اردو زبان کے درمیان فاصلہ تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔

اردو اسکولوں میں اردو پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔ مرکزی حکومت نئی تعلیمی پالیسی بھی لے کر آگئی ہے۔ اس لیے اب یہ ہماری ذمداری ہے کہ ہم اردو زبان کے فروغ کے لیے خود آگے پڑھیں ۔ اردو کی ترقی و تحفظ کے لیے اجتماعی اور انفرادی ہر سطح پر مضبوط حکمت عملی اور تحریک کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ممکن ہو سکا تواردو زبان کو اسکا لازمی حق مل سکتا ہے۔اور ہندوستان میں اس کا مستقبل محفوظ ہو سکتاہے۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020ء میں مادری زبان میں تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کی بات بار بار دہرائی گئی ہے۔

مدھیہ پردیش سرکار نے اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے میڈیکل نصاب سے جڑے تین موضوعات پر کتابیں ہندی میں تیار کرائی ہیں۔ انجینئر نگ، پولی ٹیکنک اور وکالت کی تعلیم کے لیے بھی ہندی میں کتابیں دستیاب کرائی جائیں گی۔ دوسری بات یہ کہ مادری زبان صرف ہندی نہیں ہے۔ اردو، بنگالی، تیلگو، تامل اور پنجابی وغیرہ بھی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اردو کے اسلامی نقش کو مٹانے کے لیے بارہا کوششیں ہوئی ہیں اور آج بھی جاری ہے۔

انگریزوں کے دور اقتدار میں اردو میں موجود فارسی اور عربی زبان کے گہرے اثرات کو مٹانے کی کوشش کی گٸی۔آزادی سے قبل کشمیر سے بنگال تک کے لوگ اس زبان کو پڑھتے اور لکھتے تھے پنجاب میں اور دوسری ریاستوں میں بھی ہندو اور مسلمان دونوں یہ زبان پڑھتے لکھتے اور بولتے تھے وہی یوپی،بہار اور حیدرآباد اوردو تہذیب کے مراکز تھے۔اب یہ زبان صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گٸی ہے۔

اردو والوں کو سب سے پہلے اس پر توجہ دینی چاہیے کہ کسی طرح یہ زبان ملک کی مشترکہ زبان بن جائے۔ جس خاندان میں بچے اردو پڑھتے اور لکھتے نہیں ہیں، اس خاندان میں اسلامیات کے فاضل اور اسکالر پیدا نہیں ہو سکتے ۔ عصری منظر نامہ سے ظاہر ہے کہ جن گھروں میں اردو بولی جاتی ہے، وہاں کوٸی اردو اخبار نہیں آتا ہے۔ کیونکہ بچے اب اردو نہیں پڑھتے ہیں۔ اردو میڈیم میں داخلہ لینا تو دور کی بات، اب تو بچے ایک مضمون کی حیثیت سے بھی اردو نہیں لیتے ہیں۔

حال یہ ہے کہ اردوخطوط بھی اردو میں نہیں لکھے جاتے ، شادی کارڈ تک اردو میں نہیں چھاپے جاتے۔ ناموں کی تختیاں بھی اب اردو میں نظر نہیں آتیں۔ دکانوں اور اداروں کے سائن بورڈ بھی اب اردو میں نہیں لکھے جاتے،اس کے برعکس ہندی اور انگریزی میں نظر آ جاتے ہیں۔ ہم اردو والوں کے لیے لازمی ہے اپنی دکانوں کے سائن بورڈ پر جہاں انگریزی میں نام درج کراتے ہیں وہیں اردو کو بھی اس کا حق دینے کی کوشش کریں۔ ریلوے اسٹیشن کے بورڈ سے بھی اردو کو ختم کیا جا رہا ہے۔ بنگال کے ہوڑہ اسٹیشن کا نام بھی اردو میں نہیں وغیرہ وغیرہ۔

افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ کچھ اساتذہ کے گھروں سے بھی اردو غائب ہو رہی ہے کیونکہ ان کے بچے اور بچیاں انگریزی یا ہندی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں داخلہ کرواتے تھے لیکن گھر پر مولوی صاحب کو رکھ کر قرآن اور اردو کی تعلیم دلواتے تھے۔ اب وہ اہتمام ، مذہب کا احترام اور اردو سے تعلق برائے نام رہ گیا ہے۔ جس صوبے میں ہم قیام کرتے ہیں،وہاں کی زبان بھی لکھنا پڑھنا لازمی ہے۔

آج اردو کے فروغ و ترقی کے لیے جتنے بھی کام کٸے جارہے ہیں، وہ سب نظر تو آتے ہیں لیکن اردو کو زندہ و پائندہ کوئی بھی زبان اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے پڑھنے، لکھنے اور پڑھانے کا بھی رواج قائم ہو۔ اگر ہمارے اندر اردو کے تعلق سے محبت اور اس کی اہمیت نہیں ہوگی تو ہم اردو کی لڑائی جیت نہیں سکتے۔

Recommended