قاسمی نماز کیوں؟ نماز کا مسنون طریقہ کیوں نہیں ؟
تحریر : مسعود جاوید
گرچہ غالب گمان یہی ہے کہ " پسند فرمودہ" مرتب نے اپنی کتاب کو ضرورت سے زیادہ مقبول بنانے اور فروخت کرنے کی غرض سے لکھا ہے لیکن مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب اور نگران کتابچہ مفتی محمد شاہد صاحب کو ایسا کرنے سے منع کرنا چاہیے تھا اور یہ بھی کہ "قاسمی نماز" ندوی نماز مظاہری نماز کوئی چیز نہیں ہے طریقہء نماز تو صرف وہ ہے جو اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم نے بتایا : "صلوا كما رأيتموني اصلي" نماز اس طرح پڑھو جیسا مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔۔
اس طرح کے مرتبین مؤلفین اور مصنفین نہ جانے کتنے خانوں میں نماز کو بانٹیں گے!
حنفی مسلک والوں کا طریقہ نماز ایک ہے خواہ وہ دیوبندی ہو، بریلوی ہو، جماعت اسلامی ہو ، قاسمی ہو، ندوی ہو، مظاہری ہو، اصلاحی یا فلاحی ہو۔
اس لئے کتاب کا نام " نماز کا مسنون طریقہ" بہتر ہوتا ۔
میرے خیال میں کھینچ تان کر تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غلط روش ہے تو اسے تسلیم کر کے اصلاح کی کوشش ہونی چاہیے۔
عرف عام میں قاسمی کی نسبت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی طرف ہوتی ہے۔ عرف عام کا اعتبار ہوتا ہے۔ اور وہاں کے فارغین کو قاسمی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد " محمدی" نہیں ہے۔ لوگ اپنا تعارف جب قاسمی کہہ کر کراتے ہیں تو مخاطب فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں
کیا آپ نے کہیں قاسمی صلی اللہ علیہ وسلم سنا یا پڑھا ہے !
بعض حضرات خواہ مخواہ تاویل کر رہے ہیں اور عقلی گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ تاریخی طور پر یہ صحیح نہیں ہے کہ اس کی بنیاد " مدرسہ قاسم العلوم" کے نام پر رکھی گئی تھی۔
تاریخ یہ ہے کہ " ١٥ محرم ١٢٨٣ ھجری مطابق 30 مئی 1866 عیسوی میں سب سے پہلے " مدرسہ عربی اسلامی" کے نام سے داغ بیل ڈالی گئی۔
جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1875 میں "محمڈن اینگلو-اورینٹل کالج" کے نام سے قائم کی گئی تھی۔
۔