مہاتما گاندھی نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے کئی عدم تشدد کی تحریکیں چلائیں اور اسی سلسلے میں 8 اگست 1942 کو انڈین نیشنل کانگریس کے بمبئی (ممبئی) اجلاس میں ان کی ‘ بھارت چھوڑو آندولن ‘ کی تجویز کو منظوری دی گئی ۔ یہ میٹنگ تاریخی ‘گوالیا ٹینک’ پر ہوئی۔
اس تجویز کا آخری حصہ تھا – ‘ملک نے سامراجی حکومت کے خلاف اپنی مرضی کا اظہار کر دیا ہے۔ اب اسے اس مقام سے واپس لوٹنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ لہذا، کمیٹی گاندھی جی کی قیادت میں وسیع پیمانے پر، غیر متشدد طریقے سے عوامی جدوجہد شروع کرنے کی تجویز کو قبول کرتی ہے۔
کانگریس کے اس تاریخی کنونشن میں مہاتما گاندھی نے تقریباً 70 منٹ تک تقریر کی۔ انہوں نے کہا-’میں آپ کو ایک منتر دیتا ہوں، کرو یا مرو، جس کا مطلب ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو ملک کی آزادی کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے‘۔ بھوگاراجو پٹابھی سیتارامیا نے گاندھی جی کے بارے میں لکھا ہے۔ ‘دراصل، گاندھی جی اس دن اوتار اور پیغمبر کی متاثر کن طاقت سے متاثر ہو کر تقریر کر رہے تھے۔
حالانکہ وہ عدم تشدد پر تھے لیکن انہوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے ’کرو یا مرو‘ کا بنیادی منتر دیا۔ انہوں نے برطانوی حکمرانوں کی جابرانہ، معاشی لوٹ مار، توسیع پسندانہ اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف عوام کو منظم کرنے کے لیے بھارت چھوڑو آندولن ‘ کا آغاز کیا۔ گاندھی جی نے کہا تھا-’کوئی ملک اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس میں رہنے والے ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کریں‘۔
گاندھی جی کے ان الفاظ کا ہندوستان کے لوگوں پر جادوئی اثر ہوا اور وہ نئے جوش، نئے حوصلے، نئے عزم، نئے ایمان، عزم اور خود اعتمادی کے ساتھ جدوجہد آزادی میں کود پڑے۔ ‘کرو یا مرو’ کی آواز ملک کے کونے کونے میں گونجنے لگی۔