Urdu News

ہم جنس پرست کون؟

آفتاب سکندر

آفتاب سکندر

مجھے ایک لڑکا اچھا لگتا تھا شاید میرے لیے پرکشش تھا یا میرے اعصاب پر سوار تھا یوں کہہ لیتے ہیں کہ مجھے اس سے قرار ملتا تھا ہاں بہت قرار ملتا تھا کیا بتاؤں کہ کتنا قرار تھا؟

کیسا قرار ملتا تھا؟

اس کی یادوں میں شاید کوئی خدا بستا تھا جب بھی آتیں مجھے قرار کی وادیوں میں بے قرار کردیتیں، پھر آہستہ آہستہ مرض بڑھنے لگا مجھے اُس کا کسی دوسرے کے ساتھ تعلق ہونا گراں گزرتا۔ نہیں صرف گراں نہیں گزرتا بلکہ میرے تن میں آگ سی لگ جاتی۔اس کو معلوم تھا میرے احساسات کے متعلق مگر وہ نارمل ہونے کی وجہ سے جانتے ہوئے سمجھنے سے قاصر تھا اب یوں ہوا کہ کہ اس کو مجھ سے دلچسپی بالکل نہیں تھی اور وہ مجھ سے بات کرنے سے بھی گریز کرتا، البتہ اس کی باتیں، اس کا غصہ، اس کا گالی دینا شاید زود و کوب بھی مجھے پتہ نہیں کیوں ناگوار بالکل بھی نہ لگتا، اس کو بولتا ،سمجھاتا کہ مجھے یار بہت زیادہ جلن رہتی ہے دیکھو پلیز یار تم میرا احساس کرو۔

وہ پھر بھی نہ سمجھتا دوسرے دوستوں کی محفل میں اُٹھتا، بیٹھتا آخر وہی ہوتا رہا کسی اور کے ساتھ دیکھ کر جلتا رہا، روتا رہا کُڑھتا رہا وہ پھر بھی نہیں مانا شاید اس کو کبھی تکلیف کا احساس ہی نہیں ہوا بقول شاعر

نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا

عمر گزری مگر درد نہ جانا دل کا

بہر کیف پیر نصیر الدین نصیر کی اسی غزل کادوسرا شعر

کچھ نئی بات نہیں ہے کسی پہ آجانا دل کا

مشغلہ ہے نہایت ہی پرانا دل کا

یہ روش تو پرانی تھی اور ہر بار کی طرح میں ناکام ہی رہا البتہ تکلیف، درد اس بار زیادہ تھا،مجھے چھوڑ دیا سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ پر اُس نے بلاک کرکے مجھ سے ہر رشتہ ناطہ ختم کرلیا اور مجھے تکلیف پہچانا شاید تکلیف پہچانے کی بجائے میری تکلیف سے لاتعلقی کا اظہار کرلیا۔

میں روتا رہا، پیٹتا رہا سمجھاتا رہا دیکھو یار ایسے نہیں کرتے اللہ کا واسطہ ہے سمجھنے کی کوشش کرو،میں بیمار نہیں ہوں نارمل ہوں سب میرا مذاق بناتے کہ دیکھو اس کی سوچ پر حیرانی آتی ہے۔

’’دو آدمی کسی کی جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر خوش رہنا چاہتے ہیں تو اس سے مذہب یا معاشرے کو کیا خطرہ لاحق ہے‘‘

یہ کتنی عجیب سوچ کا مالک ہے کیسی بات کرتا ہے۔پھر کچھ تکلیف تو کم ہوئی مگر اس نے ملنا بند کر دیا۔ ملنا چھوڑ دیا گھر جاتا تو بھائیوں سے کہتا کہ اُس کو بولو میں گھر پر نہیں ہوں۔

ایک بار ملاقات ہوئی تو کہتا ہے دیکھو میری زندگی ہے میں جیسے چاہوں گزاروں جس کے ساتھ بناؤں جس کے ساتھ بگاڑوں تمھیں کیا مسئلہ ہے۔

میں اِدھر اُدھر دیکھتا کہ یار کوئی تو ہو جو میرے جذبات کو سمجھ سکتا ہو ،جان سکتا ہو، اُس کے سامنے میری وکالت کرے یار ایسے کسی کے ساتھ نہیں کرتے۔ یہ ظلم ہے یہ ناانصافی ہے۔تم دل کی نرمی کھو رہے ہو۔ کل کے کل خیر سے محروم ہو جاؤں گے۔

تمھیں تمھاری ماں روئے ذلیل انسان تمھیں دنیا جہان کی مصیبتیں پڑیں ایسا کرکے تجھے کیا مل رہا ہے مگر میں کیا کرتا میں جاہل معاشرے کا فرد تھا یہاں تو انسانی جذبات کی ناقدری زور و شور کے ساتھ کی جاتی ہے۔ یہاں تو جذبات کو بھی مذہب کی کسوٹی پر تولا جاتا ہے اس معاشرے نے کیا عدل کرنا ہے یہ تو ہے ہی اقدار کا پابند۔

وہ روٹھا رہے مجھ سے یہ منظور ہے مگر

یاروں اس سے سمجھاؤ میرا شہر نہ چھوڑے

یہ شعر عمدہ تھا یا نہیں اس کا کچھ کہہ نہیں سکتے البتہ عطاء اللہ خان عیسی خیلوی کا ہاتھ اُٹھا کر التماس کرنا بہت معقول تھا جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زندگی میں سب سے زیادہ تکلیف دہ، ہولناک، کربناک ،اذیت ناک، آسیب دہ، آزردہ،ایذا، زرر، گزند اور تصدیعہ پہچانے والے  لمحات اور کیفیات وہی ہوتے ہیں جن میں آپ کا اثاثہ، سجنڑ ،ساتھی، دلبر لٹ جاتا ہے کسی غیر کا ہوجاتا ہے اور آپ بے بسی کی تصویر بنے رہ جاتے ہیں۔

آجا سجنڑا نہ جا رُس کے

تو جتیا تے میں ہاری

اس کے بعد ہی میں نے خیال کیا کہ کاش وہ سین دو ٹکے کی عورت والا خلیل الرحمٰن قمر صاحب یوں جیسے اُن کا گمان تھا کہ کرنا چاہیے تھا

’’وہ کہتا ہے بتاؤ کتنے لوں گے

میں کہتا دو ٹکہ

وہ کہتا ہے حیران کن نظروں سے دو ٹکہ، میں ہاں بس دو ٹکہ ہی چاہیے

وہ کہتا دیکھو آفر ابھی بھی بدل سکتے ہو پھر نہ کہنا

میں بولتا نہیں دو ٹکہ

دو ٹکا دینے کے بعد جانے لگتے تو دروازے پر میں بولتا آفر بدل سکتا ہوں وہ کہتا ہاں

میں دو ٹکا اُس کی ہتھیلی پر مارتے ہوئے بولتا لے جا دو ٹکے کی بھی نہیں‘‘۔

Recommended