ڈاکٹر مینک چترویدی – ترجمہ انظر حسن قاسمی
یہ تو سبھی کو پتہ ہے کہ عالمی صحت تنظیم ڈبلیو ایچ او کے چیف ٹیڈروس ایڈیہنم گریبرے کی تقرری میں چین کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے، لیکن اس کے بعد بھی یہ اعتماد کیا جارہا تھا کہ اس عالمی صحت ادارہ میں کارگزار بننے کے بعد ’’ٹریڈروس‘‘ کم سے کم صحت کے معاملے میں کسی بھی ملک کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے۔ لیکن یہ کیا موجودہ حالات میں لگ رہا ہے کہ پوری ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہی چین کی غلام ہے، وہ پوری طرح سے چینی زبان بولتی نظر آرہی ہے۔ کم سے کم بھارت کے تناظر میں تو یہی نظر آرہا ہے۔
آج دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیلانے کا اصلی گنہگار کون ہے چین کے وُہان کا سچ بھی دنیا جاتی ہے، جب عالمی صحت ادارہ کی سائنسی ٹیم چینی بھیجی جارہی تھی، تبھی کئی لوگوں نے یہ بتا دیا تھا کہ یہ صرف دکھاوا ہے۔ عالمی صحت ادارہ (ڈبلیو ایچ او) یہ کبھی نہیں کہے گا کہ وُہان سے ہی کورونا باہر نکلا اور پوری دنیا کے لئے خطرہ بن گیا۔
درحقیقت ہم سبھی نے دیکھا بھی یہی، جو اندیشہ تھا وہی صحیح نکلا۔ سائنسدانوں کی ٹیم چین سے آتے ہی اس کے گنگان میں لگ گئی۔ یہاں تک کہ اب بحران یہ ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کےچیف ٹریڈروس ایڈیہنم گریبرے ییسس سے لیکر دیگر ان کے کلیدی ساتھی ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی پروگراموں کے کلید مائکل ریان اور بھی تمام لوگ آج چین کا ہی گنگان کرتے نظر آرہے ہیں۔ کل تک چین کی جو ویکسین کورونا سے لڑنے میں پوری طرح سے قابل نہیں تھی، اس کے آئے ریزلٹ اچانک سے اچھے ہوگئے ہیں۔ آج ڈبلیو ایچ او کو چینی سنوفارم کمپنی کے اینٹی کووڈ ٹیکے صحیح نظر آرہے ہیں، اس لئے اس کے ایمرجنسی استعمال کو وہ منظوری عطا کرتا ہے۔
یہاں تک بھی صبر کیا جا سکتا تھا، لیکن ہندوستان کو بدنام کرنے اور چین کی تعریف کرتے جو کچھ دن پہلے ڈبلیو ایچ او افسران کے ویڈیو آئے، خبریں آئیں۔ اس کے بعد پھر ڈبلیو ایچ او کی اسی ہفتہ کورونا کے بی 1.617 اسٹرین پر رپورٹ آئی ہے، اس نے پوری طرح سے واضح کر دیا ہے کہ عالمی صحت ادارہ چینی پرستی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ حالانکہ اس 32 صفحات کے دستاویز میں کورونا وائرس کے بی 1.617 ویراینٹ کے ساتھ ’’بھارتی ویراینٹ‘‘ لفظ نہیں جڑا ہے۔ لیکن جس طرح کی میڈیا میں خبریں آئیں اور بھارت کو پوری دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، وہ ایسے ہی اچانک سے تو ہو نہیں گیا، پھر بھلے ہی ڈبلیو ایچ او کہے کہ رپورٹ میں کہیں نام نہیں ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اشاروں میں ہی صحیح ہندوستان کو بدنام کرنے کی پوری سازش ڈبلیو ایچ او کی طرف سے رچی ہوئی صاف طور پر نظر آرہی ہے۔
دراصل اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بی 1.617 اسٹرین پہلے کے مقابلے زیادہ متعدی اور جان لیوا ہے۔ اس اسٹرین نے کورونا ویکسین کے خلاف بھی کافی حد تک مدافعت کی قوت حاصل کر لی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کا یہ اسٹرین پہلی مرتبہ اکتوبر 2020 میں ہندوستان میں رپورٹ کیا گیا تھا۔ ہندوستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر اور موتوں کی بڑھتی تعداد نے اس اسٹرین اور دیگر ویراینٹ بی 1.1.7 کے ممکنہ رول پر سوال کھڑے کئے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اس رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ وائرس کا یہ اسٹرین سب سے پہلے ہندوستان میں پایا گیا اور اس کے بعد یہ دنیا کے 44 ممالک میں پھیل گیا۔ رپورٹ اتنا گول مول ہے کہ سیدھے تو نہیں لیکن اشارا ہندوستان کی طرف ہی ہے۔ آج تعجب اس بات پر ہے کہ دنیا میں کورونا پھیلائے چین اور منصوبہ بند طریقے سے بدنام کیا جائے ہندوستان کو!
یہ ٹھیک ہے کہ اس چین پرست رپورٹ کے آنے کے بعد حکومت ہند نے اپنی طرف سے صورت حال واضح کر دی ہے اور بتایا ہے کہ ایسی رپورٹنگ بغیر کسی بنیاد کے کی گئی ہے۔ مختلف میڈیا میں ایسی خبریں آئی ہیں کہ عالمی صحت ادارہ (ڈبلیو ایچ او) نے بی 1.617 کو ایک عالمی فکر والے ویراینٹ کی شکل میں درجہ بندی کی ہے۔ ان میں کچھ رپورٹ میں بی 1.617 ویراینٹ کا ذکر کورونا وائرس کے ’’بھارتی ویراینٹ‘‘ کی شکل میں کیا ہے۔ یہ میڈیا رپورٹ بے بنیاد ہے۔ لیکن سچ یہی ہے کہ جو پیغام اس رپورٹ کو دینا تھا وہ یہ دے چکی ہے اور بھارت کو آج دنیا بھر میں بی 1.617 کو لیکر کٹہرے میں کھڑا کیا جارہا ہے۔ ایسے میں اب ضروری ہو گیا ہے کہ ہم عالمی صحت ادارہ کے خلاف آواز اٹھائیں، اسے مجبور کریں کہ کورونا کا صحیح سچ سب کے سامنے لائے۔ اس سے بار بار یہ پوچھا جانا چاہئے کہ چین کے سچ کو وہ کب دنیا کے سامنے لائے گا۔
(مضمون نگار کا تعلق ہندوستان سماچار سے ہے)