Urdu News

ناول زندیق : جنسیت، متبادل جنسیت، جنسی آزادی کو لے کر ایک بحران

رحمان عباس کا ناول زندیق

 زندیق : ایک تاثر

زیبا خان 
اردو  ادب میں ناولوں  کا دور  ڈپٹی نذیر احمد  1869سے شروع ہوکر ابھی تک جاری ہے۔ جس میں اصلاحی سماجی سیاسی پس منظر میں سیکڑوں ناول تخلیق ہوئے اور آج بھی لکھے جا رہے ہیں۔ لیکن ان سیکڑوں ناولوں میں محض چند ناول ہی ایسے ہوئے ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ ایسا ہی ایک ناول "زندیق" ہے، جس نے بہت کم وقت میں، محض دو مہینوں میں ہند و پاک میں عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کی۔زندیق نے روایتی بندھنوں کو توڑ کر قاری کی توجہ  جدید دور کے پیدا  شدہ  حالات پر مبذول کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور کامیاب بھی ہوا ہے۔ اس ناول کے مصنف رحمٰن عباس جن کا نام جدید ناول نگاروں میں صف اول میں شامل ہے۔ تقریباً نو دس کتابوں کے خالق ہیں ۔ جس میں پانچ ناول شامل ہیں۔ ان کا پہلا ناول "نخلستان کی تلاش" ہے، جو تنقید کا نشانہ  بنا، جس پر فحاشی کا مقدمہ بھی چلا اور مصنف کو کچھ دن جیل میں گزارنے پڑے۔ دوسرا ناول  " ایک ممنوعہ محبت کی کہانی" تیسرا ناول " خدا کے سائے میں آنکھ مچولی" جسے مہاراشٹر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اور چوتھا ناول " روحزن" جسے ساہتیہ اکیڈمی دہلی سے نوازا گیا۔ انہیں کا پانچواں اور سب سے زیادہ مشہور ناول " زندیق " ہے۔ جو دسمبر 2021 میں عرشیہ پبلیکیشنز نے شائع کیا اور شائع ہوتے ہی اس کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ دوسرا ایڈیشن جلد ہی آنے والا ہے۔ وہیں پاکستان میں عکس پبلیکیشنز نے اسے شائع کیا اور وہاں بھی اس کا پہلا ایڈیشن تقریباً فروخت ہو چکا ہے۔ 
رحمٰن عباس اردو ناول نگاری کا ایک معتبر نام ہیں یا نہیں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن انھوں نے ناول 
" زندیق"  میں جو تجربہ کیا ہے وہ یقیناً انہیں جدید ناول نگاروں میں اہم مقام عطا کرتا ہے۔ اس ناول میں نازی واد، ہٹلر  کی تاناشاہی اور جرمنی میں یہودیوں کے قتل عام، ہندوستان اور پاکستان کی سیاست سے اقلیتوں کے لیے پیدا شدہ خطرات، کشمیر کے موجودہ حالات اور اس پر فرقہ پرست تنظیموں کا رد عمل، مذہب کی آڑ میں سیاست کا گھناؤنا کھیل، وجودیت ، رشتوں کے بدلتے Dimensions, کوئیر موومنٹ، جنس کی آزادی اور متبادل جنسیت کا کھلا سپورٹ، رزمیہ اساطیر، ہندو دیومالائی اساطیر کا استعمال، مذہبی متن کی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ میرا جی کی نظموں کو متن کا حصہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جس سے ناول ایک ساتھ کئی انگڑائیاں لے رہا ہے۔ ناول کا ہر کردار اپنی شناخت آپ رکھتا ہے پھر وہ چاہے ثناءاللہ یا پرسنا ہو ، یا شہناز شاہین انیتا ہو، یا پھر بادوشا ہو، ہر کردار زندہ و جاوید ہے۔ 
ناول کا مرکزی کردار ثناءاللہ جو ایک فوجی ہے جسے اپنے وطن سے محبت اور اپنے کام سے حد درجہ عقیدت ہے۔ اس کے فوجی بننے کی خبر سے ناول شروع ہوتا ہے اور اس جملے ، " اور جنگ شروع ہو گئی ۔۔۔۔"   پر ختم ہوتا ہے جہاں سے قاری کے ذہن میں مذہب پرستوں کی منافقت، صاحب اقتدار لوگوں کی اقلیتوں پر ظلم و جبر کے خلاف  ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ یہی ناول کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اختتام پر قاری کا ذہن تذبذب کا شکار ہو کر سوچنے پر مجبور ہو جائے، کہ اس جنگ کا خاتمہ کب اور کیسے ہوگا۔۔۔۔ قاری کے ذہن میں چل رہی یہ جنگ آگے چل کر کیا روپ اختیار کرے گی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔  
یہ ناول جنگ اور جنگ سے پیدا شدہ خطرات ، جرمنی میں یہودیوں کے لئے بنائے گئے ڈٹینشن کیمپ میں ہونے والے قتل عام ، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کو لے کر کر چل رہے تنازعہ میں پس رہے تمام مظلوموں کے احتجاج کی ایک روداد ہے ، کبھی نہ ختم ہونے والی ایک داستان ہے۔ 
ان سب سے الگ میں ناول کے دوسرے پہلو پر بات کرنا چاہوں گی۔ یہ ناول جنسیت، متبادل جنسیت، جنسی آزادی کو لے کر ایک بحران ہے، ناول کے نسوانی کردار شاہین اور شہناز ، انیتا اور عارفہ ، پرسنا  کوئیر موومنٹ کا حصہ ہیں اور جنسی آزادی پر کھل کر بات کرتی ہیں ، اس کا سپورٹ کرتی ہیں ۔ شہناز پہلی بار ہندوستان میں سیکس ٹوائز جاپانی گڑیا کا شوروم کھولتی ہے جس کا افتتاح پرسنا کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ پرسنا ایک عمر دراز خاتون ہے جو ہم جنس پرستوں کی حمایت کرتی ہے۔ ناول کا سب سے جاندار کردار پرسنا  ہے جو ناول کے تقریباً دو تین سو صفحات پورے ہونے  پر ہی مر جاتی ہے لیکن اس کا ذکر پورے ناول میں چلتا رہتا ہے۔ ثناءاللہ ایک معصوم فوجی ہے جسے پرسنا نے ہی میجک مشروم کے ذائقے سے روبرو کروایا تھا۔ اور پہلی بار ثناءاللہ نے پرسنا کے ساتھ ہی اس کا لطف اٹھایا۔ جس رات ثناءاللہ میجک مشروم کے نشے میں پرسنا کے  ساتھ ہم بستر تھا اسی کے دوسرے دن پرسنا کی موت ہو جاتی ہے اسپتال میں شہناز ثناءاللہ کو بتاتی ہے کہ پرسنا کی آخری خواہش تھی کہ وہ مرنے سے پہلے کسی کنوارے لڑکے کے ساتھ رات گزارے۔ حالانکہ شہناز کو بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ رات ثناءاللہ پرسنا کے ساتھ تھا۔  اس کے بعد تو ثناءاللہ کو جیسے لت ہی لگ گئی وہ ایک ایک کر شہناز، شاہین، انیتا اور عارفہ کے ساتھ  میجک مشروم سے  لطف اندوز ہوتا رہا۔ وہیں شہناز اور شاہین ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں اور دونوں ہی سیکسول ریلیشن شپ میں ہیں۔ اس کے باوجود دونوں کھلے ذہن سے ایک دوسرے کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ چاہیں تو کسی لڑکے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ بعد میں شہناز کو ثناءاللہ سے محبت ہو جاتی ہے اور وہ شادی کر لیتے ہیں ان کا ایک بیٹا ہوتا ہے۔۔۔لیکن شاہین اب بھی شہناز کی متلاشی ہے۔ اس کے لمس کی دیوانی ہے۔ ثناءاللہ سے شادی کے بعد شہناز بالکل بدل جاتی ہے اور ایک روایتی بیوی کی طرح رہنے لگتی ہے جس سے ثناءاللہ کو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ایک لڑکی جس کا ذہن اس قدر وسیع تھا جو کوئیر موومنٹ کا حصہ تھی ، جس نے سیکس ٹوائز کا کاروبار شروع کیا جو پرسنا جیسی خاتون کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اس سے متاثر تھی وہ ایک دم کیسے بدل گئی۔۔۔اس نے شادی ہوتے ہی شوہر کی اطاعت کیسے قبول کر لی۔ جبکہ ثناءاللہ آج بھی مختلف لڑکیوں کے ساتھ کانٹیکٹ میں ہے ان سے اکثر ملتا رہتا ہے۔ یہی نہیں ثناءاللہ اپنے دوست بادوشا کے ساتھ بھی کئی راتیں گزار چکا ہے۔۔۔ناول عورت اور مرد کی نفسیات کی انہیں پرخار راہوں سے گزرتا ہوا دور حاضر کے انسان کی فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔ کہ انسان وہ چاہے مرد ہو یا عورت تبدیلی کا خواہاں ہے اسے نئی چیزیں نئے تجربے کرنا پسند ہیں۔۔۔پھر وہ چاہیں جنس کے معاملے میں ہی کیوں نہ ہوں۔ 
ناول کے متن میں مذہبی متون کو شامل کرکے ناول نگار نے ناول کا رخ موڑ دیا ہے، الفانوسی کا ذکر ،متن کے 786 کو ناول کے صفحات اور قیمت سے جوڑ کر جو سسپینس پیدا کیا ہے وہ قاری کو پورا ناول پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔  ناول پڑھتے وقت ذہن کے پردے پر سارے مناظر رقص کرنے لگتے ہیں جیسے بڑے پردے پر کوئی فلم چل رہی ہو اور ناظر پورے ہوش و حواس کے ساتھ لطف اندوز ہو رہا ہے۔  ناول کا بیانیہ سادہ اور سلیس ہے جملوں کی ساخت رواں دواں ہے۔ کہیں کہیں پر ناول داستانوی انداز بیان اپنا لیتا ہے جس سے بوریت محسوس ہوتی ہے ۔کیونکہ آج کا قاری داستانوی دنیا سے نکل چکا ہے وہ جدید دور میں جینا پسند کرتا ہے۔  شروعات کے کچھ صفحات ایسے ہیں کہ قاری بنا رکے ہی پڑھتا چلا جائے۔۔۔ لیکن جیسے جیسے ناول آگے بڑھتا ہے گنجلک ہوتا جاتا ہے۔ متن میں کچھ غلطیاں ہیں، جو امید ہے اگلے ایڈیشن میں درست کر دی جائیں گی۔ مجموعی طور پر ناول زندیق اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے۔ لیکن اس کو پڑھنے کے لئے ذہن کو خلا چاہیے، صرف خلا ہی نہیں بلکہ  ذہن بھی کھلا چاہیے۔

Recommended