سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
عصرِ حاضر میں غزل اپنی مختلف صورتوں اور جلووں کے ساتھ اپنے حسن و جمال کا اظہار کر رہی ہے۔اس کے یہاں یہ جادو گری ہے کہ اس سخت جاں کا جسم یا ہئیت تو صدیوں سے یکساں ہے لیکن یہ طرح طرح کے ملبوسات اور زیبائش سے اپنے حسن کو دوبالا کرتی رہی ہے۔یہ اپنی ذات میں اس گلستان کی طرح ہے جس کے یہاں انگنت پھول ہیں اور انگنت پھولوں کی الگ الگ خوشبو ہے جو اردو ادب کی فضا کو مسلسل معطر کر رہی ہے۔اس کے ہر گل کی ادااور مسکراہٹ منفرد اور جاذبیت کی متحمل ہے۔اب یہ با ذوق قاری کا کمالِ ذوق ہوگا کہ وہ کس پھول کی خوشبو سے لذت محسوس کرتا ہے۔یہ غزل ایک ایسا طلسم ہے جس کو توڑنا آسان نہیں یعنی جس کی تفہیم ہوتے ہوتے بھی نہیں ہوتی یا نامکمل رہ جاتی ہے۔سب اپنی اپنی دانست اور شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے بارے میں خیالات کے چراغ روشن کرتے ہیں۔
عصرِ حاضر میں غزل کے باغ کی مختلف اسالیب کے ذریعے سے متعدد باغباں آبیاری کر رہے ہیں۔جن میں ذوالفقار نقوی ایک ایسے باغباں ہیں جن کا اسلوب اپنے ہمعصر باغبانوں یعنی شعراء سے جدا اور پُر کشش ہے۔اس سلسلے سے ان کی کارگردگی کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ دور میں ذوالفقار نقوی غزل کے لئے جو کام انجام دے رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ان کے یہاں اس سلسلے سے تراش خراش بہت کم ملتی ہے ۔وہ تو ایک ایسے باغباں ہیں جو اپنے اسلاف کے لگائے ہوئے اس غزل کے باغ کو ہمہ وقت نہارتے ہیں اس سے محظوظ ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کس طرح پرانے پھولوں میں نئی تازگی اور نئی خوشبو کا سلسلہ عام کیا جائے۔گویا کہ وہ ر وایت کے امین ہیں اور نئے دور میں بھی غزل کی آبرو بچانے میں اہم کردار انجام دے رہے ہیں۔
ذوالفقار نقوی کی تین کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔تیسری اور تازہ ترین کتاب ’’دشتِ وحشت‘‘ جو کہ غزل کا مجموعہ ہے اہلِ ادب کے روبروہے۔کسی بھی باذوق قاری اور لکھنے والے کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ جب کوئی کتاب پڑھے تو اس پر اظہار خیال ضرور کرے۔یہی سوچ کر اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن میں اس سلسلے سے کچھ نقوش ابھرے جنھیں اس مضمون میںالفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ذوالفقار نقوی کی شاعری کا اگر سرسری طور پر ہی مطالعہ کیا جائے تواندازہ ہوگا کہ ان کی غزل نئی اور جدید غزل ہونے کے باوجود روایتی زیورات سے آراستہ ہے۔ان کے یہاں مطالعہ کا اثر،اسلاف کی تاسی اور نئی فکر کے ساتھ ساتھ شعر کہنے کا فن نظر آتا ہے۔موجودہ دور میں جہاں غزل کو غزل کے بجائے کچھ اور بنایا جا چکا ہے وہیں ذوالفقار نقوی کا مزاج یہ ہے کہ وہ غزل کو غزل کی روش سے ذرہ برابر نہیں ہٹنے دیتے۔روایت کے زیرِ سایہ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہم سے پوچھو غمِ مسیحائی
ہم شناسا ہیں اس ستمگر کے
دیکھا نہیں ہے یار کی جب سے گلی کا رخ
چمکا ہے اس کے بعد مری دلبری کا رخ
اے قیس اب جنوں نہیں چڑھتا کسی کے سر
ہر باب ناتمام ہے تیری کتاب کا
یہ فسوں کاری چلے گی کب تلک یوں ناصحا
کیوں زباں پر لا رہا ہے جو ترے من میں نہیں
زادِ راہ کا ہم سے کیوں سوال کرتے ہو
رہزنوں کے نرغے میں جب ہمیں اتارا ہے
صدیوں کی پیاس ہے مرے اندر بسی ہوئی
لا ساقیا! دہن میں سمندر اُتار دے
روایتی شاعری کا اندازرہا ہے کہ اس نے بہ یک وقت محبوب کو مسیحا بھی جانا ہے اور ستمگربھی سمجھا ہے ،اس کی گلی میں اپنی زندگی گزارنے کی تمنا بھی کی ہے،قیس اور اس کے جنوں کا ذکر بھی کیا ہے،ناصح کی ملامت بھی کی ہے،رہبروں اور رہزنوں کا ذکر بھی قدم قدم پر کیا ہے اور ساقی کا نام بھی بار بار لیا ہے۔ان روایتی کرداروں اور مضامین کے سائے میں ہم ذوالفقار نقوی کے رقم کئے گئے اشعار کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان پر روایت غالب نظر آتی ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ یہاں فرسودہ کاری نہیں بلکہ تازگی و شگفتگی کاقوی اظہار نظر آتا ہے۔وہ روایت پرست ہونے کے ساتھ ساتھ تازہ کاری کو کبھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
روایت کے زیرِ سایہ ذوالفقار نقوی مختلف صورتوں سے اپنی شاعری کا لوہا منواتے ہیں۔مثلاً ہمارے روایتی شعراء نے تصوف سے متعلق بھی بہترین شعری کی ہے جس میں وحدت الوجود کے حوالے سے ناقابلِ فراموش اشعار ملتے ہیں۔ذوالفقار نقوی بھی وحدت الوجود پر مشتمل اشعار پیش کرتے ہوئے اپنے مزاج اور فکر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مثلاً:
ذرے ذرے میں نظر آئے تو
کیسے کہہ دوں کہ ہوئی دید نہیں
یعنی خدائے تعالیٰ اپنی کاریگری کی وجہ سے ذرے ذرے میں نظر آتا ہے اوردنیا کی ہر شئے خدا کے ہونے کی گواہی دیتی ہے۔
ذوالفقار نقوی اس سلسلے سے جب اور آگے بڑھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ محبوبِ حقیقی کی معرفت حاصل کریں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ بندے سے ہی خدا کی قدرت نمایاں ہے لیکن خدا اور بندے کے درمیان انسان کا وجود ہی پردہ ہے جب تک یہ پردہ نہیں ہٹتا معرفتِ الٰہی ممکن نہیں۔شعر ہے:
منعکس مجھ سے صورتیں تیری
اس تماشے کا میں ہی پردہ ہوں
جہاں معرفتِ الٰہی ہوجائے یعنی انسان راہِ تصوف کا مسافر ہوجائے تو وہ رضاو قدر پر راضی بہ رضا رہتا ہے اسے ذرہ برابر بھی اپنے رب سے شکوہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی غربت یعنی فقیری میں ہی لذت اور اطمنان محسوس کرتا ہے گویا کہ قناعت اس کا شیوہ ہوجاتی ہے۔ذوالفقار نقوی کہتے ہیں:
کیا ہے مرے کشکول میں تجھ کو نہیں معلوم
تونے مرے مالک کی عنایت نہیں دیکھی
عصرِ حاضر کی غزل میں جہاں تلمیح کی وہ نمود نہیں رہی جو روایتی شاعری کا خاصہ ہے لیکن اگر کوئی اس دور میںبھی ان کی معنویت و اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس میں کمال بھی پایا جاتا ہے سلیقہ بھی پایا جاتا ہے اور تلمیح کا بھی پورا حق ادا ہوتا ہے وہ ذوالفقار نقوی کی غزل میں ہے۔انھوں نے نہ صرف وہ تلمیحات پیش کیں جو روایتی شعراء نے پیش کیں بلکہ کئی جگہ ایسی تلمیحات بھی پیش کیں جن پر روایتی شعراء کی نگاہ بھی کم گئی۔اس سلسلے سے کچھ اشعار دیکھیں:
وائے مسجودِ ملائک سر جھکائے ہے کھڑا
کیا خبر تھی دیکھناہوگی یہ پستی ایک دن
شہر میں کوئی بھی نہیں آزر
کون انساں بنائے پتھر کے
دھل نہیں پائے کدورت کے نشاں
آبِ زمزم میں نہا آئے بہت
دھندلا نہ جائے عکسِ رُخِ دلربائے من
اک طور میری آنکھ میں یکسر اُتار دے
ہوتا نہیں ہے مجھ پہ فسوں کوئی کارگر
گو دیکھتا ہوں صبح و مسا سامری کا رخ
ہمارے روایتی شعرا کے یہاں لاتعداد اشعار مل جائیں گے جن میں’’مسجودِ ملائک ‘‘ یعنی حضرت ’’آدمؑ‘‘ ’’آزر‘‘’’حضرت اسماعیلؑ‘‘ ’’طور‘‘ اور ’’سامری‘‘ جیسی تلمیحات ہیں۔موجودہ دور میں ان تلمیحات کا حق ادا کرنے کا ہنر ذوالفقار نقوی بخوبی جانتے ہیں۔اگر رقم کئے ہوئے اشعار پر غور کیا جائے تو ہر تلمیح اپنے ایک نئے تیور کے ساتھ شعر میں نمایاں ہوئی ہے اور جدید و قدیم زمانے میں ربط و تسلسل پیدا کرتی ہے۔یعنی وہ انسان جس کو کبھی فرشتوں نے عزت بخشی تھی آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ وہی اپنے سے پست مخلوق کے آگے سر جھکائے ہوئے نظر آتا ہے۔اسی طرح آزر کے فن یعنی اس کی مجسمہ کاری سے کون واقف نہیں ؟آج کے دور کا واقعہ یہ ہے کہ کوئی آزر کی طرح فنکار موجود نہیں جو زمانے کو خوبصورتی میں اضافہ کرسکے ،اسی طرح آج انسان سے انسان اس قدرمتنفر ہے کہ زمزم جیسے مقدس پانی میں نہا کر بھی اس کی کدورت جیسی کثافت زائل نہیں ہوتی۔ساتھ ہی وہ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ ہمہ وقت ان کی آنکھوں میں ’’طور ‘‘روشن رہے جو کہ محبوب کے حسن کی علامت ہے۔وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ آج کے دور میں جہاں بہت سی چیزوں میں تبدیلی آئی ہے محبت کے حقیقی جذبے میں بھی فرق آیا ہے اور اب عاشق محبت کے سحر میں تا دیر گرفتار نہیں رہتا چاہے اس کا محبوب مثلِ سامری ہی کیوں نہ ہو۔
ان کی پیش کردہ تلمیحات کا یہ بھی خاصہ ہے کہ وہ پرانی ہوکر بھی نئے سیاق و سباق میں نظر آتی ہیں۔مثلاً ایک شعر ملاحظہ کریں:
کوئی عصا بھی نہیں اور پھر اکیلا تو
امیرِ شہر کا اژدر نگل بھی سکتا ہے
ظاہر ہے کہ شعر میں حضرت موسیٰؑ اور ساحرانِ فرعون کے واقعے کی طرف اشارہ ملتا ہے لیکن یہ تلمیح شعر میں عصرِ حاضر کے مناظر پیش کرتی ہے یعنی کسی کا امتحان میں گرفتار ہونا یا پھر ظالم کے روبرو حق و صداقت کو ثابت کرنا وہ بھی بغیر کسی معجزے کے آسان نہیں لیکن حوصلے کی کرشمہ سازیوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اس کی بدولت ہر ناممکن کام ممکن ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے یہاں وہ تلمیحات بھی ہیں جن کو بہت کم لوگوں نے غزل میں بیان کیا ہے جیسے بہلولِ دانا کی تلمیح۔شعر ملاحظہ کریں:
نہ پوچھو میری آشفتہ سری کا
مجھے بہلولِ دانا کر گئی ہے
جن لوگوں کو بہلول کے واقعات معلوم ہیں ان کی دیوانگی اور ان کی دانائی کا علم ہے ،خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں ان کی آمد و رفت کا علم ہے وہ بخوبی اس شعر سے لطف اٹھا سکتے ہیں۔گویا کہ ذوالفقار نقوی ان تلمیحات کو بھی اٹھاتے ہیں جو غزل میں اس قدر عام نہیں جتنی دیگر تلمیحات ہیں۔
ذوالفقار نقوی کی غزل روایت کے زیرِ سایہ بھی قنوطیت اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ ان کی شاعری مسلسل جدو جہد اور حوصلے کا پیغام عام کرتی ہے۔انھیں معلوم ہے کہ انسان کی بہت سی خواہشات پائے تکمیل تک نہیں پہنچتی یا وہ آسانی سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپاتا لیکن زندگی کو کامیاب ترین بنانے اور زندہ رہنے کے لیے حوصلہ لازم ہے۔شعر ہے:
چوم کے ہاتھوں کی ریکھائیں سوتا ہوں
خوابوں کی یہ دولت زندہ رکھتی ہے
انسان کی خواہشات اور خواب ہی ہیں جو اسے محنت و مشقت پر آمادہ رکھتے ہیں اگر انسان خواب ہی نہ دکھے تو دنیا میں ترقی ہی نہ ہوسکے۔یہی وجہ ہے کہ پُر عزم اور جفا کش انسان کسی طرح مایوس نہیں ہوتے۔شعر ملاحظہ کریں:
ذرا دیکھوں تو کتنا دم ہے اس بادِ مخالف میں
گھروندا اک سرِ دشتِ بلا تعمیر کرنا ہے
ذوالفقار نقوی ہر مقام پر ہمت والے اور باحوصلہ نظر آتے ہیں اور مسلسل جد و جہد کا پیام دیتے ہیں۔شعر ہے:
تیرگی مجھ سے کیوں نہ ہو خائف
روشنی کا میں استعارہ ہوں
ایسا نہیں کہ انھوں نے چندمخصوص مضامین کے تحت ہی اپنی غزل کو روایت کے زیرِاثر پیش کیا ہے بلکہ ان کے یہاںخالص غزل کے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن میں محبوب کی تعریف اور اس کا فراق بھی نمایاں ہے اور ماضی کی یاد بھی جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔مثلاً:
تیری خوشبو ہے ہمسفر کب سے
ساتھ میرے مگر کہاں ہے تو
اس ایک ہی شعر میں انھوں نے جہاں محبوب کے جسم کی خوشبو کی بات کی ہے جس سے تغزل عیاں ہے وہیں اس کے فراق کی کیفیت کے ساتھ ساتھ محبوب سے ماضی کی قربتوں کو بھی یاد کیا ہے۔
ذوالفقار نقوی کی غزل روایت پسندی سے جدید لب و لہجے کی جانب سفرطے کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔یہی وجہ ہے ان کے یہاںنئی نئی تراکیب اور علامتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایک شعر دیکھیں جس میں ’’خیمۂ عقل‘‘ کی ترکیب پیش کرتے ہوئے ناکام فیصلوں کے انجام کی بات کرتے ہیں:
خیمۂ عقل کی تھیں طنابیں کٹیں
فیصلوں کے قدم لڑکھڑاتے رہے
ان کے یہاں موجودہ ذوقِ ادب کے زیرِاثر تقریباً وہ تمام علائم موجود ہیں جو آج کے ہمعصر شعراء اپنے اپنے اسالیب کے تحت پیش کرتے ہیں ۔مثلاً جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے تحت جو علائم ہیں ان میں سورج،چراغ،سمندر،جگنو،پیڑ اور پرندہ وغیرہ ہیں۔ذوالفقار نقوی بھی ان علائم کو اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں اور ان سے مختلف مواقع پر کام لیتے ہیں لیکن ان کے یہاں ان ب علائم میں شجر اور پرندے کی علامت بہترین حسن و جمال کے ساتھ نظر آتی ہے۔مثلاً:
ہم بھی باہر نکل نہیں سکتے
وہ پرندہ بھی گھر نہیں آتا
ظاہر ہے کے یہاں ’’پرندہ‘‘ کسی محبوب یا حسن پیکر کی علامت ہے جس پر کوئی عاشق ہے لیکن چند وجوہات یا کسی پابندی کی وجہ سے عاشق و معشوق کا ملنا ممکن نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ اس علامت کے تحت ان کے یہاں ایک ایسا کرب بھی ہے جسے وہی محسوس کر سکتا ہے کسی مفلوک الحال،کسی پریشان ترین شخص یا کسی ایسے منظر سے شاسا ہو جس کی ہستی زمانے کے تغیر اور وقت کے بے رہم ہاتھوں سے مایوسی کی منزل تک پہنچ گئی ہو۔شعر ہے:
جس کی شاخوں پر کوئی اُجڑا پرندہ آبسے
وائے ایسا اک شجر بھی تیرے آنگن میں نہیں
دنیا سمجھوتوں اور ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا نام ہے کیوں کہ کوئی دنیا میں مکمل نہیں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی معاملے میں ادھورا ہے لیکن پھر بھی ادھورے لوگ ایک دوسرے سے ربط رکھنا نہیں چاہتے۔یہ آج کے دور کا المیہ ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی ہستی تک محدود ہے اور اپنی دنیا سے باہر نکلنا نہیں چاہتا جب کہ ممکن ہے اس کا کوئی منتظر ہوجس سے کائنات کا حسن مزید بر لطف ہوسکے۔
ذوالفقار نقوی اپنی غزل میں انسان کی نفسیاتی کیفیتوں اور الجھنوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ایک شعر دیکھیں:
کاش مٹ جائیں عنایت کے حوالوں کے نقوش
نام سنتے ہی ترا،سر سے نہ دستار گرے
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی وجہ سے کسی کے احسان لئے ہوئے ہوتا ہے لیکن اگر وہی محسن بار بار اپنے احسان کو جتائے اور احسان اٹھانے والے کو ذلیل و خوار کرے تو غیرت مند احسان اٹھانے والا قدم قدم پرذہنی تکلیف کا شکار ہوتا ہے اور وہ دعا کرتا ہے کہ کاش اس پر کیا ہوا احسان کسی صورت سے ختم ہوجائے کیوں کہ اس کے احساس نے اسے رسوا کیا ہوا ہے۔
ذوالفقار نقوی کے یہاں موجودہ سماج اور معاشرے کی سچی تصویریں بھی نظر آتی ہیں وہ اپنی زندگی میں جن مراحل سے گزرتے ہیں اور جو مسائل ان کے سامنے آتے ہیں ان کو سلیقے اور جاذبیت کے ساتھ اشعار کا قالب عطا کرتے ہیں۔مثلاًہم دیکھتے ہیں کہ آج کی عدالتوں میں انصاف سے کام نہیں لیاجاتا اور منصف بھی ایسا فیصلہ سنا دیتا ہے جو انصاف پر مبنی نہیں ہوتا ۔اس تناظر میں شعر دیکھیں:
رینگتی جوں بھی نہیں کان پہ اب منصف کے
بے گناہی کا بتا شور مچائوں کب تک
آج کل جو ہوائیں چل رہی ہیں ان میں نفرت کا زہر عام ہے جس کی وجہ سے انسانیت کراہ رہی ہے۔شعر ہے:
اس شہرمیں ساماں نہیں جینے کا میسر
ہر سمت ہوائوں میں ہے بس،زہرِ ہلاہل
شاعر کو ایسا لگتا ہے کہ آج کل جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ جھوٹے ہیں اور سچ سے کوسوں دور ہیں۔شعر ہے:
مسند نشیں ہیں دہر میں کذاب ہر طرف
مفقود ہے جہان سے سچائیوں کا راج
چاروں طرف منافقت ہی منافقت نظر آتی ہے کسی کے ظاہر و باطن میں یکسانیت نہیں تو اب ایسے ماحول میں اگر کوئی کسی کے دامِ فریب میں آجائے تو حیرت کا کوئی مقام نہیںشعر ہے:
چہروں پہ نئے چہرے لیے پھرتے ہیں سب لوگ
حیرت کی نہیں بات جو حیران ہیں آنکھیں
گویا کہ موجودہ دور میں خونی رشتوں نے بھی دم توڑ دیا ہے اور سب لوگ ایک مطلب کی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔شعر ہے:
اب زمانے میں ہیں رشتے بھی سبھی مطلب کے
بھائی بھائی نہیں،ہمشیر بھی ہمشیر نہیں
آج کے معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی بھی قدم قدم پر نظر آتی ہے جس سے انسانیت مجروح ہورہی ہے تو ایک حساس شاعر کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔ذوالفقار نقوی کہتے ہیں:
تن پر تو سجا رکھا ہے ملبوسِ شہانہ
آنکھوں میں مگر تیری حیا کیوں نہیں آتی
مختصر یہ کہ ذوالفقار نقوی عصرِ حاضر کے شعراء میں اپنا ایک خاص مقام اور ایک منفرد اسلوب رکھتے ہیںان کی غزل کا درخت ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑیں روایت کی ایسی مٹی میں گڑی ہوئی ہیں جسے کوئی بھی جدید آندھی اکھاڑ نہیں سکتی لیکن ان کی غزل کے اس درخت کی شاخیں نئی شعری فکر سے پیوست اثمار سے بھری ہوئی ہیں۔اس کی نئی خوشبو ہے اور نیا اندازِ تخاطب ہے جس سے بادِ صبا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔اس کی شاخوں پر ایسے ایسے پرندے چہچہاتے ہیں جن کا جمال اس بات کا گواہ ہے کہ وہ مختلف خطوں سے پرواز بھرتے ہوئے اس درخت کی شاخوں پر اپنا آشیانہ بناکر سکون حاصل کرتے ہیں اور فضا کو اپنے نغمگی سے پُر لطف بناتے ہیں۔