کھیلوں میں مہارت حاصل کرنے کی واحد اور شدید خواہش کے علاوہ یہاں کھیلو انڈیایوتھ گیمز میں آندھرا پردیش کے ابتدائی تمغے جیتنے والی – راجیتا، پلّوی اور سِریشا میں ایک اور چیز مشترک ہے۔
ان میں سے ہر ایک کا پس منظردل دہلا دینے والی غریبی سے تعلق رکھتا ہے۔
ان کے والدین نہ صرف پیٹ کی آگ بجھانے بلکہ چولہے تک جلانے کیلئے اپنی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں برسوں سے جدوجہد کرتے آرہے تھے۔
منگل کی شام کو دیر گئے، تمغوں کی آندھی چلنے کے بعد، آندھرا پردیش کی اسپورٹس اتھارٹی کے اہلکار جون گیلیوٹ خود پر قابو نہیں رکھ سکٰیں۔ پورا کیمپ اس قدر پرجوش ہو گیا کہ ہم سب شام تک پارٹی کرتے رہے۔
راجیتا نے لڑکیوں کی 400 میٹر دوڑ میں طلائی تمغہ حاصل کیا جبکہ سِریشا نے کانسے کا تمغہ جیتا۔ اس کے بعد پلّوی نے 64 کلوگرام کے زمرے میں آندھرا پردیش کیلئے پہلا طلائی تمغہ اپنے نام کیا۔
جون نے بتایا کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس سنانے کے لئے ایک بہت ہی افسوسناک کہانی ہے۔ یہ مختلف سطح کی غریبی ہے۔ یہ کشیدگی بلاشبہ ایتھلیٹکس میں ہی عام نہیں کئی دوسرے کھیلوں میں بھی یہی کہانی ہے۔
تلافی کا واحد عنصر یہ ہے کہ کھیل ان تینوں کی طرح باصلاحیت لڑکیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے کہ وہ اپنی اُن پریشانیوں کو جو اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتیں، مختصر وقفوں کے لئے بھول جائیں۔ گزشتہ چند برسوں میں کھیلو انڈیا گیمز نے ایسے بے شمار حوصلہ افزا جواہرات دریافت کئے ہیں اور انہیں مدد اور وظیفہ فراہم کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو اعلیٰ ترین سطح تک پہنچنے میں مدد بھی ملی ہے۔
کویا قبیلے سے تعلق رکھنے والی راجیتا نے کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا تھا۔ آندھرا پردیش کے مشرقی گوداوری ضلع کے ایک پرانے گاؤں رام چندر پورم میں اُس کی ماں بھدرما کو پانچ بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑی۔
جذباتی راجیتا نے انکشاف کیا کہ اُس کی ماں صبح سے رات تک ایک مزدور کے طور پر کام کرتی تھی لیکن پھر بھی اتنا کما نہیں سکتی تھی کہ ہم سب کا پیٹ پال سکے۔ ہم سب اپنے چولہوں کو جلانے کے لئے درخت کے سوکھے پتے اور ٹہنیاں اکٹھا کرتے تھے کیونکہ ہم مٹی کا تیل نہیں خرید سکتے تھے۔ یہ زندہ رہنے کے لئے روز کی لڑائی تھی لیکن میری ماں نے ایک سچی مجاہدہ کی طرح کبھی ہمت نہیں ہاری۔
پھر خوش قسمتی سے کھیل ایک مثالی بہادر کی طرح مشکل حالات سے بچانے آیا۔ تعاون یافتہ رہائش کیلئے امدادی پروگرام (ساپ) کے کوچز ومسی سائی کرن اور کرشنا موہن نے اُس کی دوڑ کے ہنر کو دیکھا اوراُس کی صلاحیتوں کو نوازا۔ اس کے بعد اسے ٹینوِک ساپ کے زیر اہتمام کیمپ کے لئے منتخب کیا گیا جہاں مائیک رسل کے تحت اسے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
اِس طرح راجیتا کی زندگی جلد ہی بدلنے لگی۔ اُس نے ریاستی مقابلوں میں حصہ لیا اور تمغے جیتنے لگی۔ گوہاٹی میں کھیلو انڈیایوتھ گیمز میں اس نے ایک اور اہم تمغہ جیتا تھا۔ وہ اب بہترین کارکردگی کا حصہ ہے اور اسے حال ہی میں نیروبی میں ہندوستانی ریلے ٹیم کی رکن بننے کا شرف ملا۔
وہ غالباً اب حیدرآباد میں ڈروناچاریہ کوچ ناگاپوری رمیش کے تحت تربیت لے رہی ہو لیکنیہ اس کے اپنے خرچ پر ہے۔ اس نے بتایا کہ ناگیندر نامی ایک شریف آدمی مجھے سرگرم رہنے کے لئے ماہانہ 10,000 روپے عطیہ کرتا ہے۔ میں مکان کا کرایہ 6000 ادا کرتی ہوں اور باقی میرے کھانے پینے کے لئے ہے۔ اس نے کہا کہ یہ ایک جدوجہد ہے۔
سری کاکولم کے مندارڈا گاؤں سے تعلق رکھنے والی سِریشا کی کہانی بھی رُلا دینے والی ہے۔ اس کے والد کرشنم نائیڈو ایک مزدور تھے۔ وہ 2019 میں ایک ہلاکت خیز حادثے میں انتقال کر گئے۔ تب سے اس کی ماں گوڑی مزدوری کا کام کرتی آئی ہیں۔
کانسے کا تمغہ جیتنے کے بعد رو دینے والی سریشا نے انکشاف کیا کہ میرے والد کے اچانک انتقال کے باوجود میری والدہ نے اصرار کیا کہ میں نے بطور کھلاڑی اپنا کیریئر جاری رکھوں۔ طویل عرصے تک دو وقت کا کھانا ہی ہمارے لئے عیش کا سامان تھا۔
واقعاًیہ اس کے والد تھے جنہوں نے سریشا کو 14 سال کی عمر میں ایتھلیٹکس میں حصہ لینے کی ترغیب دی تھی۔ اس نے بتایا کہ کھیلو انڈیا گیمز میںیہ میرا پہلا تمغہ ہے۔ پہلے کھیلو گیمز میں کارکردگی اتنی اچھی نہیں تھی۔
وہ اپنی قسمت کے ستاروں کا شکریہ ادا کرتی ہے کہ اس کے والد نے کم از کم اسے 2018 میں تروپتی میں جونیئر نیشنل چیمپئن شپ میں طلائی تمغہ جیتتے ہوئے دیکھا تھا۔
سریشا نے جو حیدرآباد میں رمیش کے تحت سائی اکیڈمی ٹرینی کے طور پر تربیت بھی کرتی ہیںم کہا کہ والد کی آنکھوں میں خوشی نے مجھے اچھی کارکردگی کے لئے اور بھی پرعزم بنا دیا۔
اٹھارہ سالہ ایس پلّوی مصیبت پر فتح کی ایک اور کہانی رکھتی ہے۔ ویٹ لفٹنگ 64 کلوگرام میں طلائی تمغہ جیتنے والی لڑکی کونڈا ویلگڈا، وجیا نگرم ضلع (آندھرا پردیش) میں ایک تعمیراتی مزدور کی بیٹی ہیں۔ ان کے والد لکشمی نائیڈو نے اپنی بیٹی کی خوراک کے لئے اضافی گھنٹے کام کرتے تھے۔ اس نے کہا کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ میرے والد نے میرے لئے کیا قربانیاں دی ہیں۔ آج میںیہ تمغہ انہیں نذر کرتی ہوں،
آندھرا پردیش کی یہ تینوں لڑکیاں حقیقی معنوں میں چیمپئن ہیں۔