کھیل کے تئیں خواتین میں بیداری
ہندوستانی خواتین نے کھیل کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر کے تاریخ رقم کر دی ہے
کھیل کو د نہ صرف بہترین ورزش ہے بلکہ یہ اعلیٰ درجے کا سامان تفریح بھی ہے۔ اس سے زندگی میں نظم و نسق یعنی ڈسپلن پیدا ہوتا ہے۔ کھیل سے انسان نہ صرف جسمانی طور پر چست درست رہتا ہے بلکہ ذہنی بیداری کے لئے بھی کھیل کود کسی نعمت سے کم نہیں۔ قدیم زمانے میں یہ تصور عام تھا کہ کھیل کود مردوں کا کام ہے اور خواتین کو اس سے دور رہنا چاہئے۔ لیکن رفتہ رفتہ سماج میں یہ بیداری پیدا ہوئی کہ صحت اور تندرستی مرد و خواتین سب کے لئے یکساں طور پر ضروری ہے۔ صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ امریکہ اور انگلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی خواتین نے بہت بعد میں کھیل کود کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ قدیم اولمپک کھیلوں کی تاریخ حضرت عیسیٰ سے سات سو سال پہلے کی ہے۔ لیکن خواتین کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلے پہل جن کھیلوں کو مقبولیت ملی ان میں کشتی، مکے بازی اور بھالہ پھینک کے علاوہ لمبی کود اور دوڑ شامل ہیں۔ اس کے بعد فٹ بال اور بیس بال وغیرہ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ جہاں تک جدید کھیلوں کے انعقاد کی بات ہے تو 1894میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی بنیاد ڈالی گئی اور دو برس بعد 1896میں پہلی بار جدید اولمپک کھیلوں کا آغاز ہوا۔ اگرچہ یونان میں حضرت عیسیٰ سے آٹھ سو سال پہلے سے اس کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن ان تمام کھیلوں میں خواتین کی حصہ داری نہیں تھی۔ 1896 میں منعقد پہلے اولمپک کھیلوں کی کامیابی نے منتظمین کا حوصلہ بڑھایا۔ اور یہ طے پایا کہ ہر چار سال کے وقفے پر اولمپک کھیلوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ سن 1900میں پہلی بار خواتین کو ان کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا۔ آج ایک سو سترہ (117) سال بعد صورت حال بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ آج دو سو سے زیادہ ملک اولمپک کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ 1992کل 35 ایسے ملک تھے جو خواتین کی نمائندگی کے بغیر اولمپک میں حصہ لے رہے تھے۔ لیکن یو اے ای، بحرین اور افغانستان جیسے ملکوں نے خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنایا۔ سن 2004 میں بحرین نے تاریخ میں پہلی بار فاطمہ حمید اور مریم محمد کو اولمپک میں حصہ لینے کے لئے بھیجا۔ اسی سال روبینہ اور فریبہ نے اولمپک میں افغانستان کی نمائندگی کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ سن 2008 میں یو اے ای کی جانب سے لطیفہ المقطوم اور مائیثہ المقطوم نے اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا۔ یہ اپنے آپ میں ایک تاریخی لمحہ تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ ان دونوں خواتین کا تعلق یو اے ای کے شاہی خاندان سے ہے۔ یہ دنیا کے لئے ایک اشارہ تھا کہ دیواریں ٹوٹ رہی ہیں۔
سن 2010 میں سعودی عرب، قطر اور برونئی صرف تین ایسے ملک تھے جن کی جانب سے خواتین نے اولمپک کھیلوں میں حصہ نہیں لیا تھا۔ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے سعودی عرب، قطر اور برونئی سے اپیل کی کہ وہ اپنے ملک سے خواتین کو اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے بھیجیں۔ اچھی بات یہ تھی کہ ان ملکوں نے اس سلسلے میں سنجیدگی سے غور کیا۔ اور پھر 2012 کے لندن اولمپک میں ان ملکوں سے بھی خواتین نے حصہ لیا۔ اولمپک کھیلوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ حصہ لینے والے تمام ملکوں کی طرف سے خواتین نمائندگی کر رہی تھیں۔
جہاں تک ہندوستانی خواتین اور اولمپک کھیلوں کا تعلق ہے تو صورت حال اگر بہت حوصلہ افزا نہیں تو مایوس کُن بھی نہیں ہے۔ ہندوستان کی جانب سے خواتین نے اولمپک کھیلوں میں شاندار نمائندگی کی ہے۔ اور اب تک پانچ قابل فخر خواتین نے اپنے ملک کے لئے میڈل بھی حاصل کیا ہے۔ سب سے پہلے کرنم ملیشوری نے سڈنی اولمپکس میں ویٹ لفٹنگ میں میڈل حاصل کیا۔ اس کے بعد لندن اولمپکس میں میری کوم نے باکسنگ جیسے کھیل میں ہندوستان کو میڈل کی سوغات دی۔ 2012 لندن اولمپکس میں ہی ہندوستانی بیڈ منٹن کی شان سائنا نیہوال نے اپنے ملک کے لئے میڈل جیت کر خواتین کے حوصلوں میں اضافہ کیا۔ سن 2016 کے ریؤ اولمپکس میں بیڈمنٹن میں پی وی سندھو اور کشتی میں ساکشی ملک نے میڈل جیت کر ملک کا نام روشن کیا۔ اولمپک میں خواتین کے لئے کشتی کا آغاز 2004میں ہوا۔ 2012 لندن اولمپک میں گیتا فوگاٹ نے 55کیلو زمرے میں کوالیفائی کر کے ہندوستانی کشتی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ کرنم ملیسوری، میری کوم، سائنا نیہوال، پی وی سندھو اور ساکشی ملک نے ہندوستان کے لئے اولمپک میں میڈل جیت کر نہ صرف ملک کا نام روشن کیا بلکہ ہزاروں خواتین کو کھیل کے میدان میں بہترین کارکردگی کا حوصلہ بھی دیا۔ ہندوستان کی ان پانچ بیٹیوں پر ہم سب کو ناز ہے۔
اتھلیٹکس کی دنیا میں پی ٹی اوشا اور انجو بابی جارج کا نام آج بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ اُڑن تشتری کے نام سے مشہور پی ٹی اوشا کی کہانی پریوں کی کہانی جیسی ہے۔ بیڈمنٹن کی دنیا میں جوالہ گُٹا، اشونی پونپّا، اپرنا پوپٹ، پی وی سندھو اور سائنا نیہوال کئی ایسے ریکارڈ قائم کر چکی ہیں جن پر اہلِ وطن ہمیشہ ناز کریں گے۔ جب بھی ٹینس کا نام آئے گا تو ثا نیہ مرزا کے کارنامے یاد آئیں گے۔ ٹینس کو ہندوستانی خواتین میں مقبول بنانے کا کام ثانیہ مرزا نے کیا ہے۔ثانیہ مرزا نے ورلڈ رینکنگ میں جو اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے وہ ان کی زبردست محنت، قوتِ ارادی اور جانفشانی کا نتیجہ ہے۔ ہندوستانی کرکٹ اور خواتین کے حوالے سے جب بھی گفتگو ہوگی تو سندھیا اگروال، انجم چوپڑا اور مِتالی راج کا نام خود بہ خود زبان پہ آ جائے گا۔ بچھیندری پال کے حوصلوں کو تو آج بھی ہمالہ کی بلندیاں سلام کرتی ہیں۔ شوٹنگ کو خواتین میں مقبول بنانے کا کام انیسہ سید اور انجلی بھاگوت جیسی خواتین نے کیا ہے۔ دیپیکا کماری اور ڈولہ بنرجی نے تیر اندازی کو نئی بلندیاں عطا کیں ہیں۔ہاکی کے میدان میں پریتم رانی، پونم، رانی رامپال، سورج لتا دیوی، راجبیر کور اور مدھو یادو کی خدمات کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ان خواتین کا ذکر کرتے ہوئے مشہور ہندوستانی فلم ”چک دے انڈیا“ کے مناظر نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان میں کشتی کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ لیکن کشتی کے میدان میں خواتین کی نمائندگی نہیں کے برابر تھی۔ خواتین کو”صنف ِ نازک“ کے لقب سے نوازنے والا سماج خواتین کو کشتی کے اکھاڑے میں بھلا کیسے دیکھ سکتا تھا۔ لیکن کھیل کے تئیں خواتین میں بیداری آئی تو کشتی کے میدان میں بھی خواتین نے اپنا دم خم دکھایا۔ گیتا پھوگٹ اور ساکشی ملک کا سامنے آنا کوئی ایک دو دن کی کہانی نہیں ہے۔ بلکہ ان خواتین کو سماج سے بہت لڑنا پڑا۔اِس جد و جہد کی ایک جھلک ہمیں فلم ”دنگل“ میں بھی دیکھنے کو ملا۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب جے این یو نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)