Urdu News

قومی اتحاد و سالمیت کی مضبوطی اور نئی نسل کو تعمیری افکار و نظریات سے لیس کرنے کے لیے مولانا آزاد کو آئیڈیل بنانا ضروری:شیخ عقیل احمد

قومی اتحاد و سالمیت کی مضبوطی اور نئی نسل کو تعمیری افکار و نظریات سے لیس کرنے کے لیے مولانا آزاد کو آئیڈیل بنانا ضروری:شیخ عقیل احمد

<div class="kvgmc6g5 cxmmr5t8 oygrvhab hcukyx3x c1et5uql ii04i59q">
<div dir="auto">قومی اتحاد و سالمیت کی مضبوطی اور نئی نسل کو تعمیری افکار و نظریات سے لیس کرنے کے لیے مولانا آزاد کو آئیڈیل بنانا ضروری:شیخ عقیل احمد</div>
<div dir="auto">مولانا آزاد جنوبی ایشیا کے عظیم مفکر:پروفیسر انور معظم، موجودہ حالات میں مولانا آزاد کے افکار کی معنویت کئی گنا بڑھ گئی ہے:ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید</div>
<div dir="auto">قومی یومِ تعلیم کی مناسبت سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام ’مولانا ابوالکلام آزاد:بحیثیت ایک ہندوستانی مفکر‘کے عنوان سے آن لائن لیکچر کا انعقاد</div>
</div>
<div class="o9v6fnle cxmmr5t8 oygrvhab hcukyx3x c1et5uql ii04i59q">
<div dir="auto">قومی یومِ تعلیم کی مناسبت سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام ’مولانا ابوالکلام آزاد: بحیثیت ایک ہندوستانی مفکر‘کے عنوان سے ایک آن لائن لیکچر کا انعقاد کیا گیا،جس کی صدارت معروف ماہر سماجیات اور مولانا آزاد کے فکر و فلسفہ سے خاص تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے کی ۔کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے اس موقعے پر تعارفی خطاب کے دوران کہا کہ جدید ہندوستانی قوم کی اجتماعی زندگی کا کوئی حصہ، کوئی گوشہ، کوئی پلان اور کوئی پروگرام ایسا نہیں، جس پر مولانا آزاد کے افکار واقدامات کا عکس نہ پڑا ہو۔ مولانا آزاد کی شخصیت جتنی دلکش تھی اتنی ہی ہمہ گیر بھی تھی۔ وہ بیک وقت آزادی ہند کے عظیم مجاہد، مایہ ناز دانشور، دیدہ ور سیاسی رہنما، مذہبی مفکر اور بے خوف صحافی تھے۔ مولانا آزاد کی قیادت کا میدان بہت وسیع تھا، انہوں نے جس میدان میں بھی قدم رکھا، اپنی عظیم شخصیت کا اَنمٹ نقش ثَبْت کردیا۔انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد ہندوستان کے گیارہ سال وزیر تعلیم رہے، انھوں نے تعلیم کو قومی حالات وروایات کے تناظر میں دیکھا،ملک کے مفادات کے تحت ان کے عہدِ وزارت میں تعلیمی منصوبہ بندی اور سائنسی و تکنیکی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔شیخ عقیل نے کہا کہ مولانا آزاد کی وفاداری کا واحد محور ان کا ضمیر تھا اور بھارت کی مشترکہ ثقافت،جس کے تحفظ کے لیے وہ آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ مولانا کی شخصیت اور ان کے افکار میں موجودہ ہندوستان کے لیے رہنمائی کے کئی پہلو ہیں،وطنِ عزیز کے اتحاد و سالمیت کو برقرار رکھنے اور نئی نسل کو تعمیری افکار و نظریات سے لیس کرنے کے لیے مولانا آزاد کو آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے۔</div>
<div dir="auto">کونسل کے ریسرچ آفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ نے مولانا آزاد کی زندگی اور سیاسی کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھوں نے نہ صرف خود جنگ آزادی میں قائدانہ حیثیت سے حصہ لیا بلکہ مسلمانوں کو بھی اس کی دعوت دی اور اس ملک سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے ہندو اور مسلمانوں کو مل کر جدوجہد کرنے کی تبلیغ کرتے رہے۔ ان کی زندگی اور ان کے افکار آج بھی ہمارے لیے مشعل ِراہ ہیں۔</div>
<div dir="auto">معروف اسلامی اسکالر پروفیسر انور معظم نے مولانا کے افکارکا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں کئی مسلم مفکرین نے جنم لیا جنھوں نے دنیا کے مختلف خطوں کے مسلمانوں کو متاثر کیا،ان میں جمال الدین افغانی،شیخ محمد عبدہ ،سرسید احمد خان،عبیداللہ سندھی اور مولانا آزادکے نام اہم ہیں۔انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد جمال الدین افغانی سے بہت زیادہ متاثر تھے اور انھوں نے الہلال کی شروعات انہی کے رسالے العروۃ الوثقی کی تقلید میں کی تھی، مگر مولانا میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ ان کے یہاں ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانیت کا گہرا اثر ہے۔ بحیثیت وزیر تعلیم مولانا آزاد کے کارناموں کا بھی انھوں نے مبسوط جائزہ پیش کیا۔پروفیسر موصوف نے کہا کہ مولانا کا ماننا تھا کہ ہندوستانی تعلیمی نظام کو اس ملک کی تہذیب و ثقافت کے مطابق ہونا چاہیے اور اس میں باہمی اتحاد،حب الوطنی،ہم آہنگی اور بھائی چارہ کے عناصر ضرور ہوں۔ بچے کو ابتدامیں ہی اخوت و اتحاد کی تعلیم دینی چاہیے تاکہ آیندہ وہ کسی بھی قسم کے ذہنی و سماجی انتشار و خلفشار سے محفوظ رہیں۔ انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد خودنئے تعلیمی سسٹم کی پیدوار نہیں تھے ،وہ ایک مذہبی عالم تھے، جدید تعلیم انھوں نے خود مطالعہ کرکے حاصل کی تھی مگر انھوں نے ہندوستان کے نئے تعلیمی نظام کی تشکیل میں غیر معمولی کردار اداکیا۔ انھوں نے اپنے لیکچر میں ایک اہم بات یہ کہی کہ مولانا کی پوری شخصیت کی تفہیم اسی وقت ہو سکتی ہے جب مولانا اور آزاد دونوں پیش نظر رہیں،ایسا نہ ہو تو مولانا کو سمجھنے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور اگر ایسا ہو تو رفتہ رفتہ یہ احساس ہوگا کہ وہ دعوتِ فکر و عمل دینے والی ایسی شخصیت ہیں، جس کی پورے جنوبی ایشیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔</div>
<div dir="auto">ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بلا شبہ مولانا آزاد کی شخصیت ہمہ گیر ہے اورمیرے پیش رَو مقررین نے ان کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ آج مولانا آزاد کی معنویت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے، کیوں کہ ہمارے جو قومی و بین الاقوامی مسائل ہیں انھیں دور کرنے میں مولانا کی فکر بڑا کردار ادا کر سکتی ہے ۔ انھوں نے کونسل کو مولانا کے علمی ورثہ کے فروغ اور ان کی بہت سی غیر مطبوعہ علمی متروکات کی اشاعت پر توجہ دلاتے ہوئے مولانا کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے اس لیکچر کے انعقاد پر اردو کونسل اور ڈائریکٹر شیخ عقیل احمد کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔ اس پروگرام کی نظامت کا فریضہ کونسل سے وابستہ ڈاکٹر یوسف رامپوری نے بحسن و خوبی انجام دیا اور ملک و بیرون ملک سے سیکڑوں لوگوں نے آن لائن اس لیکچر میں شرکت کی۔</div>
</div>.

Recommended