Urdu News

ممتاز خان بین الاقوامی ہاکی چیمپئن شپ کی ا سٹار

ممتاز خان بین الاقوامی ہاکی چیمپئن شپ کی ا سٹار

ہندوستانی خواتین کی ہاکی ٹیم نےدھماکے دار کھیل کا مظاہرہ کر کے جونیئر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔ ہندوستانی ٹیم نے جنوبی افریقہ کے پوچیفسٹروم میں کوارٹر فائنل میں جنوبی کوریا کو 3-0 سے شکست دی۔ اس دوران ممتاز خان کو پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔ وہ پورے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول کرنے والی تیسری کھلاڑی تھیں۔ وہ اب تک 6 گول کر چکی ہیں۔ یہ خبر ان افواہوں کی تردید کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلم ٹیلنٹ کو جان بوجھ کر دبایا جاتا ہے، اور ان لوگوں کے لیے بھی ایک بڑا سبق ہے جو مسلمان لڑکیوں کو چاردیواری میں قید رکھنا چاہتے ہیں۔

19سال کی ممتاز خان، ہندوتان کی ایک نئی ابھرتی خاتون ہاکی کھلاڑی ہیں۔ وہ عالمی سطح پر تقریباً 40 میچ کھلی چکی ہیں۔ ممتاز نے اپنے کریئر کا آغاز ہندوستانی ٹیم کے ساتھ انڈر-18 ایشیا کپ سے کی تھی، جس میں ان کی ٹیم نے کانسے کا تمغہ  جیتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے انڈر-18 یوتھ اولمپک میں اپنے شاندار مظاہرے کو دوہرایا اور ہندوستانی ٹیم نے چاندی کا تمغہ اپنے نام کیا۔ حالانکہ ممتاز کا خواب اولمپک میں ہندوستان کے لیے تمغہ جیتنا ہے۔

نوابوں کے شہر لکھنؤ کی رہنے والی ممتاز کا تعلق  ایک بے حد معمولی خاندان سےہے۔ ان کے والد حفیظ خان سبزی کی دکان لگاتے ہیں، جس میں ان کی بیوی قیصر جہاں بھی ان کی مدد کرتی ہیں۔ آٹھ افراد پر مشتمل بڑے خاندان کے نان و نفقہ کے لیے دونوں بمشکل 300 روپیہ یومیہ کما پاتے ہیں۔ ان کے خاندان میں ممتاز کے علاوہ،  اس کی پانچ بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔ خاندان کی مالی حالت کمزور ہونے کے سبب ممتاز محض 12ویں تک ہی تعلیم حاصل کر پائیں۔ بعد ازاں ان کا انتخاب ہاکی کے لیے ہو گیا، تاہم  پاٹشیفٹسروم تک کا یہ سفر ممتاز کے لیے کبھی آسان نہیں رہا۔

 والد حفیظ خان بتاتے ہیں،' ممتاز کو بچپن سے ہی ہاکی کا جنون ہے۔ وہ ہاکی اور دوڑ کے مقابلوں میں ہمیشہ اول آئی ہے۔ 2011 میں آگرہ میں ایک دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے کے بعد ممتاز کے ہاکی کا سفر شروع ہوا۔کوچ نیلم صدیقی نے ان کے ہنر کو پہچانا  اور ٹریننگ کے لیے لکھنؤ  واقع کے ڈی سنگھ بابو اسٹیڈیم میں بھیج دیا۔محترمہ صدیقی نے ہی ٹرائل کے بعد ممتاز کو ہاکی کے گُر سکھائے۔  اپنی بیٹی کی اس کامیابی کو وہ کسی عید سے کم نہیں گردانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ امسال عید ہمارے لیے جلدی  آ گئی۔ ممتاز کی کامیابی پر نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ تمام باشندگان لکھنؤ کو بھی فخر ہے۔ وہیں ممتاز کی ماں قیصر جہاں جو شروع میں ممتاز کے کھلینے کے خلاف تھیں۔ وہ کہتی ہیں، 'مجھے تو بہت فخر ہوتا ہے کہ میری بیٹی ملک کے لیے کھیل رہی ہے۔

 ہمیں اس کی وجہ سے بہت عزت مل رہی ہے۔ لوگ  اکثر مجھے پانچ بیٹیوں کے ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ لیکن میری بیٹی نے ہی مجھے جذباتِ فخر سے لبریز کر دیا۔ وہ ممتاز کو 100 بیٹوں کے برابر مانتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، 'میرا  ہمیشہ سے ماننا تھا کہ اسے اپنے خالی وقت میں سبزی فروخت کرکے اپنے والد کو کچھ آرام دینا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے عزم محکم اور سخت محنت نے ہم سبھی کو آج غلط ثابت کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، 'آج بھی لوگ بیٹے کے بغیر خاندان کو ادھورا مانتے ہیں لیکن بیٹیاں تو خدا کی دی ہوئی جنتی تحفہ ہوتی ہیں، جسے ممتاز نے ثابت کر دیا ہے۔

ممتاز نے اپنی ہاکی اِسٹِک کی بدولت صدیوں پرانی پِدرانہ رویے کو کرارا جواب دیا  ہے اور ثابت کیا ہے کہ بیٹیاں بھی بیٹوں سے کسی بھی طور کم نہیں ہوتی ہیں۔ بیٹیاں بھی ایک دن وہ سب کچھ حاصل کر سکتی ہیں، جن کی امید بیٹوں سے کی جاتی ہے۔

Recommended