ہندوستانی ہاکی کے بادشاہ: میجر دھیان چند
ہر سال گرمی کی چھٹیوں میں گھر آنا اور دادا دادی کے ساتھ وقت بتانا بہت اچھا لگتا ہے۔ آم، لیچی اور جامن شہر میں بھی ملتا ہے۔ ہم خرید کر کھاتے بھی ہیں۔ لیکن اپنے باغ سے آئے ہوئے آموں کا کیا کہنا۔ تازے میٹھے آم اور وہ بھی بغیر کیمیکل کے پکائے ہوئے۔ دادا جان روز فجر کی نماز کے بعد گھر آتے، چائے ناشتہ کرتے اور اپنی چھڑی اٹھا کر کہیں نکل جاتے۔ دادا جان پچاسی سال کے ہو چکے ہیں لیکن روزانہ پانچ کیلو میٹر واک کرتے ہیں۔ صبح کی سیر کرتے ہوئے اپنے کھیتوں اور باغات کی طرف جاتے ہیں۔ میں نے ضد کی کہ دادا جان آپ کے ساتھ میں بھی چلوں گی تو دادا جان فوراً مان گئے۔ پھر تو یہ روز کا معمول ہو گیا۔ دادا جان صبح کی سیر کو نکلتے تو میں ساتھ ہو لیتی۔
میرے ابو نے بتایا تھا کہ دادا جان اپنے زمانے میں ہاکی کے مشہور کھلاڑی تھے۔ ایک دن صبح کی سیر سے لوٹتے ہوئے دادا جان ایک میدان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے کہ بیٹا میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو اسی میدان میں ہاکی کھیلا کرتا تھا۔ پھر تو ہاکی کی بات نکل پڑی۔ دادا جان پہلے اسکول، پھر کالج اور یونیورسٹی اور پھر اسٹیٹ کی طرف سے ہاکی کھیل چکے تھے۔ وہ نہ صرف ہاکی کے اچھے کھلاڑی رہے تھے بلکہ ہاکی کے بارے میں ان کی جانکاری بہت زیادہ تھی۔ اس دن صبح کی سیر سے لوٹتے ہوئے میں نے پوچھا کہ دادا جان آپ تو اسٹیٹ لیول ہاکی کھلاڑی رہے ہیں۔ آپ کا پسندیدہ ہاکی کھلاڑی کون ہے؟
میجر دھیان چند۔ دادا جان فوراً بول پڑے۔ پھر انھوں نے ذرا ٹھہر کر بتانا شروع کیا۔ دیکھو بیٹا، ہاکی ہمیشہ سے ہمارے ملک میں مقبول ترین کھیل رہا ہے۔ اس ملک میں ہاکی کے کئی مایا ناز کھلاڑی پیدا ہوئے۔ کے ڈی سنگھ بابو، ظفر اقبال، پرگٹ سنگھ، محمد شاہد، آر پی سنگھ، دھن راج پلّئی جیسے ہاکی کھلاڑیوں پر ملک کے ہر باشندے کو فخر ہے۔ مگر دھیان چند کی بات ہی کچھ اور تھی۔
دادا جان، دادا جان، دھیان چند کی بات ہی کچھ اور تھی سے کیا مطلب ہے؟ آپ دھیان چند کے بارے میں کچھ بتائیں نا!
اچھا تو سنو! دادا جان بولے۔
ہاکی کے جادوگر کے نام سے مشہور میجر دھیان چند 29اگست 1905 کو الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی الہ آباد ہے جو سنگم، امرود اور اکبر الہ آبادی کے لئے مشہور ہے۔
دادا جان، دادا جان، کیا سنگم امرود جیسا کوئی پھل ہے؟
میری اس بات پہ دادا جان خوب زور سے ہنسے۔
ارے نہیں بیٹا۔ تم نے گنگا اور جمنا ندی کا نام تو سنا ہوگا۔
جی دادا جان، جب میں ابو امی کے ساتھ بنارس گئی تھی تو ہم شام میں اسّی گھاٹ گھومنے گئے تھے۔ وہاں ہم نے آرتی بھی دیکھی۔ بہت خوبصورت منظر تھا۔ اور جمنا ندی تو ہم اکثر دیکھتے ہیں۔ دہلی میں جب ہم میٹرو میں سفر کرتے ہیں تو کئی مرتبہ میٹرو ٹرین جمنا ندی کے پُل سے گزرتی ہے۔ دہلی میں ایک میٹرو اسٹیشن کا نام بھی ”یمنا بینک“ ہے۔
خیر تو تم ہمارے ملک کی دو اہم ندیوں گنگا اور جمنا سے واقف ہو۔ الہ آباد میں یہ دونوں ندیاں آپس میں ملتی ہیں۔ جہاں یہ ندیاں آپس میں ملتی ہیں، اس جگہ کو ”سنگم“ کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک تیسری ندی ”سرسوتی“ بھی اس سنگم پہ ملتی ہے۔ سنگم ایک مقدس مقام ہے۔ ہر سال یہاں لاکھوں لوگ سنگم پہ اشنان کرنے آتے ہیں۔
اور اکبر الہ آبادی؟
اکبر الہ آبادی اردو کے ایک مشہور شاعر تھے۔ وہ اردو شاعری میں طنز و مزاح کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔ یہ کہتے کہتے دادا جان رُک گئے۔
خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ ورنہ ہم اکبر الہ آبادی، امرود اور سنگم پر ہی بات کرتے رہ جائیں گے۔ آج تو میں تمہیں ہاکی کے جادوگر میجر دھیان چند کے بارے میں بتاؤں گا۔ تو سنو! اتنا تو تمہیں معلوم ہو گیا کہ دھیان چند الہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سمیشور سنگھ نے ان کا نام دھیان سنگھ رکھا تھا۔ لیکن وہ دھیان چند کے نام سے مشہور ہوئے۔ چونکہ وہ فوج میں بھرتی ہو گئے تھے اور ترقی کر کے میجر کے عہدے پر پہنچے تھے اس لئے ہم سبھی انھیں میجر دھیان چند کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کی والدہ کا نام شردھا اور والد کا نام سمیشور سنگھ تھا۔ ان کے والد بھی فوج میں تھے اور فوج کی طرف سے ہاکی کھیلتے تھے۔ ان کے دو سگے بھائی تھے۔ روپ سنگھ اور مول سنگھ۔ روپ سنگھ بھی اپنے زمانے کے مشہور ہاکی کھلاڑی تھے۔ ابتدا میں دھیان چند کی دلچسپی کشتی میں تھی، ہاکی کھیلنا انھیں زیادہ پسند نہیں تھا۔ لیکن محض 16سال کی عمر میں جب وہ فوج میں بھرتی ہوئے تو ہاکی کھیلنے میں ان کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ رفتہ رفتہ اس دلچسپی نے جنون اور دیوانگی کا روپ اختیار کر لیا۔
دادا جان، جب والد صاحب نے ان کا نام دھیان سنگھ رکھا تھا تو پھر ان کا نام دھیان چند کیسے ہو گیا؟
اس کی بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے بیٹا۔
ہوا یوں کہ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد دھیان سنگھ دن میں ڈیوٹی کرتے تھے۔ ہاکی کی پریکٹس کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا تھا۔ اور یہ تو تم جانتی ہی ہو کہ پریکٹس کے بنا کوئی کسی کام میں ماہر نہیں ہو سکتا۔ اس لئے دھیان سنگھ رات میں پریکٹس کرنے کے لئے ہاکی کے میدان میں چلے جاتے تھے اور چاند کے نکلنے کا انتظار کرتے تھے۔ جب چاند نکلتا تو دھیان سنگھ چاند کی ہلکی روشنی میں ہاکی کھیلنے کی پریکٹس کرتے تھے۔ اس زمانے میں بجلی کے بڑے بڑے بلب نہیں تھے کہ رات میں بھی دن جیسا اُجالا ہو جائے۔ کبھی کبھی چاند دیر سے نکلتا اور دھیان سنگھ میدان کے کنارے بیٹھے چاند نکلنے کا انتظار کرتے رہتے۔ ان ساتھی کھلاڑی کہتے کہ چلو آج بنا پریکٹس کئے گھر واپس چلتے ہیں۔ تو دھیان سنگھ ان بغیر پریکٹس کئے گھر واپس جانے سے منع کر دیتے اور چاند نکلنے کا انتظار کرنے لگتے۔ تم کو معلوم ہے کہ چاند کو ہندی میں چندرما اور چندبھی کہتے ہیں۔ یہیں سے دھیان سنگھ کے ساتھی ان کو دھیان چند کہنے لگے۔ اور پھر دھیان چند ہاکی کی دنیا میں نام روشن کرنے والے بنے۔
اولمپک میں کھیلنا ہی کسی بھی کھلاڑی کی زندگی کا سپنا ہوتا ہے۔ اور اولمپک میں میڈل جیتنا تو اور بھی بڑا سپنا ہوتا ہے۔ اور جب کوئی کھلاڑی اپنے ملک کے لئے اولمپک میں سونے کا طمغہ یعنی گولڈ میڈل جیت لے تو پھر کیا کہنے۔ میجر دھیان چند نے اولمپک میں تین بار گولڈ میڈل حاصل کیا۔ سنہ 1928میں نیدرلینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں اولمپک میچ ہوا۔ ہندوستانی ہاکی ٹیم نے اولمپک میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ چودہ گول دھیان چند نے کئے تھے۔ نیدر لینڈ کے اخبارات نے لکھا کہ یہ ہاکی کا میچ نہیں تھا جادو تھا۔ اور یہ کہ دھیان چند نام کا ہاکی کھلاڑی جادوگر ہے۔
سنہ 1932 کے اولمپک میں ہندوستان کا پہلا میچ جاپان سے ہوا۔ ہندوستانی ٹیم نے اس پہلے میچ میں جاپان کے خلاف ریکارڈ گیارہ (۱۱) گول کئے، جس میں تین گول اکیلے دھیان چند نے کئے۔ اس اولمپک کے فائنل میچ میں ہندوستان کی ٹیم کا مقابلہ میزبان امریکا کی ٹیم سے ہوا۔ اس میچ میں ہماری ٹیم نے امریکی ہاکی ٹیم کو کس بری طرح ہرایا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتی ہو کہ ہمارے کھلاڑیوں نے کل چوبیس (24) گول کئے، جبکہ امریکی ہاکی ٹیم محض ایک گول کر سکی۔ ان چوبیس گول میں آٹھ گول دھیان چند نے اور دس گول ان کے بھائی روپ سنگھ نے کئے تھے۔ اس طرح امریکا سے بھی ہماری ہاکی ٹیم گولڈ میڈل لے کر واپس آئی۔ اس کے بعد 1936میں جرمنی کے شہر برلن میں اولمپک کھیل کا انعقاد ہوا۔ اس مرتبہ ہندوستانی ہاکی ٹیم کے کیپٹین میجر دھیان چند تھے۔ برلن میں بھی ہندوستانی ہاکی ٹیم نے اپنی جیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ فائنل میچ میں مقابلہ میزبان جرمنی سے تھا۔ جرمنی کی ہاکی ٹیم کو اسی کے میدان پر ہرانا بہت مشکل کام تھا۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے ٹیم کے مینیجر پنکج گپتا نے دھیان چند، جعفر، روپ سنگھ اور علی دارا کو ایک کمرے میں بلایا اور انھیں ترنگا جھنڈا دکھا کر کہا کہ ہمیں اس جھنڈ ے کی شان کے لئے کھیلنا ہے۔ پھر کیا تھا۔ میجر دھیان چند کی ٹیم نے جرمنی کی ہاکی ٹیم کو آٹھ گول سے ہرا دیا۔ اس میں تین گول خود میجر دھیان چند نے کیا تھا۔ اور ایک بار پھر گولڈ میڈل پر ہمارا قبضہ ہوا۔
میجر دھیان چند نے اپنے کیریئر میں چار سو سے زیادہ گول کئے۔ 1956 میں وہ فوج سے میجر کے عہدے سے رٹائر ہوئے۔ رٹائرمنٹ کے بعد راجستھان کے ماؤنٹ آبو میں وہ ہاکی کوچنگ کیمپ سے وابستہ رہے۔ وہ انڈین ہاکی کے کوچ بھی رہے۔ انھیں حکومت ہند کی جانب سے پدم بھوشن کا اعزاز بھی ملا تھا۔ ان کی یوم پیدائش یعنی 29 اگست کو ملک بھر میں قومی یوم کھیل (National Sports Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی دن راشٹرپتی بھون میں راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ، دروناچاریہ ایوارڈ اور ارجن ایوارڈ وغیرہ دیا جاتا ہے۔ دہلی میں نیشنل اسٹیڈیئم کا نام دھیان چند ہاکی اسٹیڈیئم رکھا گیا ہے۔ ملک میں اور بھی کئی
مقامات کے نام دھیان چند کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ ہاکی کے جادوگر کے نام سے مشہور اس عظیم کھلاڑی کا انتقال 3 دسمبر 1979 کو ہوا۔
(تحریر:طوبیٰ ایوب)