<h3 style="text-align: center;">نظریہ بڑایاقومی مفاد</h3>
<p style="text-align: right;">جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سوامی وویکانند کے مجسمے کی نقاب کشائی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بڑا بنیادی سوال اٹھایا۔ سوال یہ ہے کہ کون بڑاہے؟ قومی مفاد یا نظریۂ انہوں نے کوئی فکری بحث کرنے کے لیے یہ سوال نہیں اٹھایا ہے۔ مودی نے یہ سوال اس لیے اٹھایا ہے کیوں کہ جے این یو کو بائیں بازو کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ جے این یومیں سب سے پہلے پی ایچ ڈی کرنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہے۔</p>
<p style="text-align: right;"> میرا ہندی پراصرار ، دھوتی کرتا اور لمبی چوٹی دیکھ کر ، مجھے بھی لوگ دائیں بازو کاسمجھتے تھے۔ اس کے پہلے کانووکیشن میں ، جب میں نے ڈگری حاصل کی تو وہاں ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا اور آج کل توبائیں بازو اور دائیں بازوں کے مابین ہنگامہ آرائی ہورہی ہے۔ اس فساد کو روکنے کے لیے مودی نے نظریہ کو قومی مفادکاتابع بتایا ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">مودی کا کہنا ہے کہ جب بھی قومی بحران پیدا ہوتا ہے ، ہندستانی عوام اتنے اچھے ہیں کہ نظریہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے قومی مفاد کے حق میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے ، لیکن وہ لوگ جو قوم سے زیادہ دنیا میں یقین رکھتے ہیں اور دنیا کے تمام پرولتاری عوام کے لیے لڑ رہے ہیں ، ان سے قوم کے نام پر کسی بھی مذہب یا فرقے یا ذات کی تنگ سیاست کے خلاف پوچھاجاتاہے توکہتے ہیں کہ اس میں غلط کیا ہے؟</p>
<p style="text-align: right;"> ان کا دعویٰ ہے کہ وہ حقیقی قومی مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ یہاں مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب ہمارے بائیں بازوکے دانشور اور کمیونسٹ جماعتیں روس اور چین کی عقیدت میں ڈوبی گئیں۔ اگر ان کی ہندستان سے عقیدت ہوتی ، توآج ان کی حالت زار یہ نہ ہوتی۔ ان دنوں انہیں روکمو اور چیکمو کہا جاتا تھا۔لیکن وہ اب بھاکموہوگئے ہیں، وہ صرف کیرالہ میں سمٹ کررہ گئے ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے ہر شہری میں کسی بھی نظریے ، مذہب ، مسلک یا فرقے سے قطع نظر حقیقی ہندستانیت کو جنم دیا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اس کو دوٹوک الفاظ میں دہرا رہے ہیں۔ اس خیال کو حکمرانی کی پالیسیوں ، طرز عمل اور بیانات میں بھی جھلکنا چاہیے۔</p>
<p style="text-align: right;">(مضمون نگار مشہور صحافی اور کالم نگار ہیں)</p>.