Urdu News

نیشنل ایجوکیشن پالیسی کو مرکزی کابینہ کی منظوری

نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2019 کا جو ڈرافٹ کمیٹی نے تیار کیا تھا اسے حکومت کو سونپ دیا گیا تھا اور اب اسے مرکزی کابینہ نے منظور کر لیا ہے۔ چونتیس برسوں کے بعد اس ملک کو نئی تعلیمی پالیسی ملی ہے۔ اس کے لئے ملک کے سیکڑوں ماہرین تعلیم نے وزیر اعظم شری نریندر مودی اور وزیر تعلیم ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک کی تعریف کی ہے۔ ایک بڑا فیصلہ یہ بھی ہوا ہے کہ اب وزارت کا نام فروغ انسانی وسائل کے بجائے وزارت تعلیم ہوگا۔ پہلے یہ وزارت تعلیم ہی تھا لیکن بعد میں اسے MHRDیعنی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نام دیا گیا۔ یہ نیا نام کسی بھی صورت مناسب تو نہیں تھا۔ اب اس غلطی کو سدھار دیا گیا ہے۔ اب ہمارے پاس ایک منسٹری آف ایجوکیشن ہے۔ چند ماہ قبل جب یہ رپورٹ وزیر تعلیم جناب نشنک کو پیش کی گئی تھی تو حکومت نے اسے من و عن قبول کرنے یا لاگو کرنے کے بجائے عوام سے رائے مانگی تھی۔ جمہوریت کے تقاضے یہی تھے۔ نیشنل ایجوکیشن پالیسی کو لیکر سب سے کم چرچا اگر کہیں ہوئی ہے تو وہ اردو میڈیا ہے۔سبب جو بھی ہو لیکن نیو ایجوکیشن پالیسی کو لیکر اُردو میڈیا میں سب سے کم بحث دیکھنے کو ملی۔ جو بحث ہوئی وہ مکمل حقائق کو سامنے رکھے بغیر، منفی سوچ کے ساتھ ہوئی۔کسی بھی لحاظ سے یہ طرز عمل مناسب نہیں۔ اگرچہ حکومت نے اس نیو ایجوکیشن پالیسی کے مکمل ڈرافٹ کا اردو ترجمہ بھی مہیا کرا دیا تھا۔ این سی ای آر ٹی میں سینئر پروفیسر فاروق انصاری کی نگرانی میں اس ڈرافٹ کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ اس کے باوجود اُردو حلقے میں اس اہم اور انقلابی پالیسی کو لیکر سنجیدہ گفت و شنید کم ہی نظر آئی۔
نیشنل ایجوکیشن پالیسی تیار کرنے والی کمیٹی میں ملک کے چند بے حد اعلیٰ پائے کے ماہرین تعلیم کو شامل کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی کے سربراہ ملک کے ممتاز سائنس داں اور ماہر تعلیم، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق چانسلر پروفیسر کستوری رنگن تھے۔ سات ممبران میں فارسی زبان و ادب کے ممتاز اسکالر، جے این یو میں شعبہ فارسی کے چیئر پرسن اور اسوسیٹ ڈین پروفیسر مظہر آصف بھی شامل تھے۔محترمہ شکیلہ ٹی شمسو اس کی سیکریٹری تھیں۔ یہ تمام اسکالرس جولائی 2017 سے لگاتار محنت کر رہے تھے۔ 70سے زیادہ تعلیمی اداروں اور تقریبا ً 216 ممتاز افراد سے گفت و شنید کے بعد کمیٹی نے بڑی جانفشانی سے قومی تعلیمی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کیا۔ مئی 2019میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ڈاکٹر رمیش پوکھریال نِشنک وزارت فروغ انسانی وسائل کے وزیر بنے۔ ۱۳ مئی کو ڈرافٹ کمیٹی نے اپنی یہ رپورٹ فروغ انسانی وسائل کے وزیر محترم ڈاکٹر رمیش پوکھریال نِشنک کو پیش کی۔
چونکہ اس ہائی لیویل کمیٹی کے ایک ممبر پروفیسر مظہر آصف بھی تھے جو خود فارسی زبان و ادب کے بڑے اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو، ہندی، انگریزی اور آسامی زبانوں پہ بھی عبور رکھتے ہیں۔ ان کی کوششوں سے پالی، پراکرت اور فارسی زبانوں کی تعلیم کے لئے نئے مرکزی ادارے قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ بھی ایک بہت انقلابی قدم ہوگا کیونکہ پالی، پراکرت اور فارسی زبان میں قدیم ہندوستان کا بہت بڑا تہذیبی و ثقافتی سرمایہ موجود ہے۔اس کمیٹی نے جو ڈرافٹ تیار کیا ہے اس میں اساتذہ کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم کی بہتری کے لئے بہت اہم مشورے شامل ہیں۔ تعلیم بالغاں، تعلیم میں ٹکنالوجی کا استعمال، ہندوستانی زبانوں کا فروغ اور قومی تحقیقی فاؤنڈیشن کا قیام بھی اس ڈرافٹ کا اہم حصہ ہے۔ اس ڈرافٹ میں یہ مشورہ بھی شامل ہے کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں راشٹریہ شکشا آیوگ یعنی قومی تعلیمی کمیشن کی تشکیل کی جائے گی۔ اس پالیسی کا وژن بہت صاف ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2019ایک ایسے ہندوستان مرکوز نظام تعلیم کا تصور رکھتی ہے جو سب کو اعلیٰ معیاری تعلیم فراہم کر کے ہمارے ملک کو پائیداری کے ساتھ مساویانہ اور علم دوست سماج کا روپ دینے میں براہ راست تعاون دے۔ اس کمیٹی نے یہ ڈرافٹ بیس سالہ وقفہ کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا ہے۔ یعنی سنہ ۰۲۰۲؁ء سے سنہ ۰۴۰۲ ؁ء کے درمیان ہندوستان میں تعلیمی نظام کیا ہوگا اور کیسے اسے بہتر سے بہتر بنایا جائے اس تعلق سے بہت اہم مشورے اس ڈرافٹ میں موجود ہیں۔ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک اور مدارس کی تعلیم سے لیکر میڈیکل کالج کی تعلیم تک کو دھیان میں رکھ کر قومی تعلیمی پالیسی کا یہ ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے لاگو ہونے کے بعد بہت سی تبدیلیوں کے امکانات ہیں۔ زمینی حقائق کو دھیان میں رکھ کر سفارشات کی گئی ہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان میں میڈیکل ٹورزم کو کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ افریقی و عرب ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ بغرض علاج یوروپ اور امریکا جاتے تھے۔ لیکن اب وہ ہندوستان کا رُخ کرنے لگے ہیں۔ کیونکہ اب امریکا اور یوروپ کے مقابلے معیاری میڈیکل سہولیات ہندوستان میں بہت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ اس سیکٹر میں مختلف زبانوں کے مترجم کی مانگ بڑھی ہے۔ تربیت یافتہ مترجم کی بڑھتی ہوئی اسی مانگ کو دیکھتے ہوئے قومی تعلیمی پالیسی میں ایک اعلیٰ معیاری ادارے کے قیام کے لئے سفارش کی گئی ہے۔ جس کا نام ہوگا انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ انٹر پرٹیشن۔ اس انسٹی ٹیوٹ کا قیام یقینا ایک انقلابی قدم ثابت ہوگا۔ اس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
کمیٹی کی اہم سفارشات میں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل، اور یو جی سی کا نام بدلنا بھی شامل ہے۔ کچھ نا عاقبت اندیش لوگ بغیر رپورٹ پڑھے یہ کہنے لگے کہ حکومت یو جی سی کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ارے جناب یو جی سی کو ختم نہیں کیا جا رہا ہے، یو جی سی یعنی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا نام بدل کر اب ہائر ایجوکیشن گرانٹس کمیشن کیا جائے گا۔ حکومت کے اس قدم کا تو سبھی کو استقبال کرنا چاہئے۔ ادھر تمل ناڈو میں بغیر کسی ٹھوس جانکاری کے یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ حکومت جنوبی ہند کے لوگوں پر زبردستی ہندی زبان تھوپ رہی ہے۔ تمل ناڈو کی سیاست میں ایک زمانے سے ہندی مخالف رجحان پایا جاتا رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے یہ افواہ پھیلائی۔ کمیٹی کے چیرمین پروفیسر کستوری رنگن خود سامنے آئے اور یہ واضح کیا کہ ملک میں کہیں بھی کسی بھی علاقے میں زبردستی ہندی زبان تھوپنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس تعلیمی ڈرافٹ میں کہیں اس بات کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ فروغ انسانی وسائل کی وزارت کا نام اب سیدھے طور پر وزارت تعلیم ہوگایعنی منسٹری آف ایجوکیشن۔اس پہ بھلا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ لیکن مخالفت برائے مخالفت کی ذہنیت کو کیا کہا جائے؟ نیشنل ایجوکیشن پالیسی کے حوالے سے حکومت کی منشا پر شک کرنے کے بجائے اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے نفاذ کے بعد ہونے والی مثبت تبدیلیوں میں اپنی حصہ داری کویقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔

(مضمون نگارڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)

.

Recommended