Urdu News

جموں و کشمیر میں بین المذہبی شادی ایکٹ نافذ کر نے کی مانگ

جگمو ہن سنگھ رینا

سکھوں او رمسلمانوں سے  ہم آہنگی کوبرابر جاری وساری ر کھنے کی اپیل:  جگمو ہن سنگھ رینا

جموں و کشمیر میں بین المذہبی ایکٹ نافذ کر نے کی مانگ کرتے ہوئے آ ل پارٹیز سکھ کارڈنیشن کمیٹی کے چیر مین جگمو ہن سنگھ رینا نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر میں سکھ برادری اکثریتی مسلم کمیونٹی کے ساتھ ہم آہنگی سے زندگی بسر کر رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں دونوں طبقوں کے مابین تنازعہ پیدا کرنے کی بہت ساری کوششیں کی گئیں، تاہم دونوں برادریوں کے مابین موجود مضبوط رشتوں کی وجہ سے وہ مذموم عزائم شکست کھا گئے۔ انہوں نے کہا کہ برسوں سے جموں وکشمیر کے اونچے سیاسی گھرانوں میں بین ذات کی شادیاں ہوئیں لیکن کسی نے بھی ان کی طرف انگلی نہیں اٹھائی۔ جب بھی عام گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے تو یہ مسئلہ بن جاتا ہے۔

 جگموہن سنگھ رینا نے سر ینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وقتاً فوقتاً بدقسمتی سے کچھ واقعات منظرعام پر آئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ مسلمان اور سکھ دونوں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کو برقرار رکھیں۔ عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمار بھائی چارہ خراب نہ ہو۔ چوں کہ دونوں کمیونٹیز نے ایک دوسرے کے جذ بات اور احساسات کا خیا ل رکھا۔ اب آ ئند ہ بھی یہ دونوں طبقوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم آہنگی کوبرابر جاری وساری ر کھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سکھ برادری کی طرف سے درخواست کرتا ہوں کہ جموں و کشمیر میں بین المذ ہبی شادی ایکٹ نافذ کیا جائے اورجب اس قانون پر عمل درآمد ہو گیا تو ذات پات کے ازدواج از خود ختم ہوجائیں گے۔ اس سے مختلف مذاہب سے وابستہ لوگوں کے مفادات کا تحفظ ہوگا۔ ایسے عناصر جو اس طرح کی شادیوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ برسوں سے جموں وکشمیر کے ایلیٹ سیاسی گھرانوں کے افرادبین ذات کی شادیاں ہوئیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی ان کی طرف انگلی نہیں اٹھائی۔ جب بھی عام خاندانوں میں ایسا واقعہ ہوتا ہے تو یہ مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کو چوکس رہنا چاہیے تاکہ موقع پرست سیاستدان اس کا استحصال نہ کریں۔اسی کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ جموں وکشمیر میں تبدیلی کے انسداد قانون نافذ کیا جائے جگموہن سنگھ رینا نے کہا کہ ہم گذشتہ کئی دہائیوں سے اقلیتوں کی بہتری کام کرتے رہے ہیں اور کمیٹی مستقبل میں بھی اس طرح کا کردار ادا کرتی رہے گی۔ ہم اس سلسلے میں مرکزی حکومت اور سابقہ ریاستی حکومت دونوں اعلی حکام سے ملے ہیں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے دروازے کھٹکھٹاتے رہتے ہیں۔ سکھ برادری کے بیشتر مطالبات اسی طرح باقی ہیں کیونکہ وہ حکومت میں موجود لوگوں کی طرف سے پورا نہیں کیا گیا ہے۔

Recommended