Urdu News

یکساں حقوق کی تلاش میں حوّا کی بیٹی

خواتین کے یکساں حقوق کی عمل آوری درحقیقت ایک مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ خواتین کے لئے یکساں حقوق جو آئین نے دئے ہیں، اس کو عملی جامہ پہنانا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مزید حقوق کی مانگ تو بعد کی بات ہے۔ پہلے جو حقوق ملے ہوئے ہیں انھیں حقیقت کی زمین پر اُتارنے کی سخت ضرورت ہے۔ صرف ہمارے ملک ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین کے یکساں حقوق کی پامالی کی جاتی رہی ہے۔زمانہ قدیم سے خواتین کو سماج نے ان کے حقوق سے محروم رکھا تھا۔ یکساں حقوق کی حصول یابی کے لئے نہ صرف بے دار ذہن خواتین نے بلکہ سماج کے دیگر طبقات نے بھی جد وجہد کی۔ آئین سازی کے اداروں نے خواتین کے یکساں حقوق کو قانون کا جامہ پہنایا۔ لیکن ان تمام قوانین کی عمل آوری نے ہمیشہ چیلنج پیش کیا۔ اس چیلنج کو قبول کرنا اور قوانین کو عملی جامہ پہنانا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
اس بات سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ وجود کائنات کی رعنائی خواتین و مرد کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ انسانی زندگی کو با معنی بنانے میں ابتدا سے ہی خواتین نے سب سے اہم رول ادا کیا ہے۔تہذیب انسانی کے ارتقا میں مرد و خواتین کی حصہ داری برابر کی رہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم رہے ہیں۔ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں گھر سے ہی ذمہ داریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ایوانِ پارلیامنٹ اور ایوانِ صدارت تک پہنچتا ہے۔ یہ بات بھی عجیب و غریب ہے کہ دنیا کے ہر سماج نے عورت کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، سماج کے مختلف طبقات نے عورت کی پرستش کی ہے لیکن جب یکساں حقوق کی بات آتی ہے تو کبھی رسم و رواج کے نام پر تو کبھی روایت کے نام پر خواتین کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا۔ عورت اور مرد کے درمیان ایک خلیج بنا دی گئی۔ رفتہ رفتہ خواتین کو مساوی حقوق سے محروم کیا جانے لگا۔ ناانصافی اور محرومیوں کا یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوا کہ دنیا بھر میں آواز بلند ہونے لگی۔ خود تعلیم یافتہ اور بے دار ذہن خواتین آگے بڑھ کے یکساں حقوق کے لئے مناسب قوانین بنائے جانے کی مانگ کرنے لگیں۔
ایک طویل جد و جہد کے بعد خواتین کو قانونی طور پر یکساں حقوق دئے گئے۔ لیکن ناانصافی کی یہ خلیج اتنی چوڑی تھی کہ اسے پاٹنے میں وقت لگا۔ اور اب بھی کئی مقامات پہ اس خلیج کے آثار نظر آتے رہتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی خواتین کے یکساں حقوق کی بازیابی کوئی بہت آسان کام نہیں تھا۔ اس کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ 1939 میں یکساں حقوق کے لئے خواتین کا جو عالمی کنونشن ہوا وہ انڈر گراؤنڈ تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد خواتین کے یکساں حقوق کی بازیابی کے سلسلے میں ذرا تیزی سے کام ہوا۔ 1948 میں ہوئے عالمی کنونشن کے ذریعے خواتین کو کام کرنے کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا۔ سکون اور اطمنان کی بات بس اتنی ہے کہ رفتہ رفتہ ہی سہی ہم یکساں حقوق کے سو فیصد حصولیابی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ جسمانی ساخت کے کچھ بنیادی فرق کے علاوہ عورت اور مرد میں پوری یکسانیت ہے۔ لیکن ایک زمانے سے سماج نے بغیر کسی سائنسی بنیاد کے خواتین کو کمتر اور کمزور ماننے کی غلطی کی۔یہاں تک کہ جمہوری نظام حکومت میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق بھی بہت بعد میں ملا۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایک صدی کی جد وجہد کے بعد آئین میں 19 ویں ترمیم کے ذریعے 18اگست 1920کو خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہو سکا۔ ساری دنیا کو اپنی روشن خیالی کے قصے سنانے والے برطانوی بھی اپنی خواتین کو 1918سے پہلے ووٹ دینے کا حق نہیں دے سکے تھے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ برطانیہ میں خواتین کو ووٹ دینے کا جو حق ملا وہ بھی شرائط کے ساتھ تھا۔ اسی خاتون کو ووٹ دینے کا اختیار دیا گیا جو یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہو اور عمر 30 سال سے کم نہ ہو۔ جبکہ مرد کو 21 سال کی عمر میں ووٹ دینے کا اختیار حاصل تھا اور وہ بھی بغیر کسی تعلیمی لیاقت کے۔کسی جمہوری نظام میں اگر ووٹ دینے کا حق ہی حاصل نہ ہو تو بھلا یکساں حقوق کی بات کس مُنہ سے کی جا سکتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ امریکا جیسے ملک میں بھی 1921سے پہلے خواتین کو یکساں حقوق حاصل نہیں تھے۔مقام شکر ہے کہ 1947 میں جب ہم نے آزادی حاصل کی، اور اپنا آئین تیار کیا، تو بھارت رتن بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر جیسی عظیم شخصیت نے روز اول سے ہندوستانی خواتین کو ووٹ کا حق دیا۔ اسی کے ساتھ ہندوستانی خواتین کو یکساں حقوق دئے جانے کی وکالت کرتے ہوئے قانون میں مناسب رد وبدل کیا۔
ہندوستانی آئین کی نظر سے دیکھیں تو خواتین کو بھرپور یکساں حقوق حاصل ہیں۔ ووٹ دینے کا حق ہو یا انتخابات میں شریک ہونے اور اسمبلی و پارلیامنٹ میں پہنچنے کا حق ہو۔ کام کے اوقات، اجرت و معاوضے کی بات ہو یا زمین جائداد کی خرید فروخت کا معاملہ ہو، ہندوستانی خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ عام طور پر یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ یکساں حقوق سے متعلق قوانین کی عمل آوری بہتر طریقے سے نہیں ہو رہی ہے۔ سن 2017 میں کرائے گئے ایک نیشنل سروے میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ ہمارا آئین خواتین کو جو تحفظ فراہم کرتا ہے اس کا 55 فیصد سے کم زمینی سطح پر نظر آتا ہے۔ ماہرین ِ سماجیات اس کی وجہ سماجی بناوٹ میں تلاش کرتے ہیں۔ صدیوں سے چلی آرہی روائتیں اکثر خواتین کو یکساں حقوق کی حصول یابی سے روکتی ہیں۔ یکساں حقوق کی پامالی کرنے والے جب گھر کے افراد ہوں تو معاملہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں خواتین حق کی آواز بھی بلند نہیں کرتی ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس صورت حال میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔
( مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب،جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہی)

.

Recommended