Urdu News

سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ اور دیگر کتب کا اجراء

سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ اور دیگر کتب کا اجراء

<div class="col-lg-4 col-md-4 col-sm-4 col-xs-12"></div>
<div class="col-lg-12 col-md-12 col-sm-12 col-xs-12">
<h3>سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ اور دیگر کتب کا اجراء</h3>
<h3></h3>
Launch of 'Sir Syed Articles' and other books organized by Sir Syed Academy
<div>سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ اور دیگر کتب کا اجراء</div>
<div></div>
<div>سرسید اکیڈمی اور دارا شکوہ مرکز تفاہم بین المذاہب و ڈائیلاگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو اہم ادارے ہیں جو کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عوام تک براہ راست ربط پر بھی توجہ مرکوز کریں تاکہ سماج کو مجموعی طور سے فائدہ ہو۔ کتابوں کو دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی ترجمہ کرکے شائع کیا جائے تاکہ سرسید اور علی گڑھ تحریک کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے“۔ ان خیالات کا اظہار اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ سمیت دیگر کتابوں اور مونوگراف کی آن لائن رسم اجراء تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔</div>
<div>وائس چانسلر کے بدست ’مقالات سرسید‘ (مولانا محمد اسماعیل پانی پتی)، جلد اوّل،’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلنڈر-1932‘، ’تفہیم سرسید (الطاف احمد اعظمی)، ’شیخ محمد عبداللہ (پاپا میاں)‘ از ڈاکٹر محمد فرقان،’جسٹس سرشاہ محمد سلیمان‘ از ڈاکٹر اسد فیصل فاروقی اور ’مولوی چراغ علی‘ از ڈاکٹر رضا عباس کا اجراء عمل میں آیا۔ پروفیسر منصور نے کہا کہ اے ایم یو کے صدی سال میں سرسید اور علی گڑھ تحریک سے متعلق قدیم کتابوں کی اشاعت باعث مسرت ہے۔ انھوں نے کہاکہ اشاعتوں کا معیار بلند ہونا چاہئے، ساتھ ہی کتابوں کا ہندوستانی اور انگریزی سمیت دیگر غیرملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہونا چاہئے تاکہ سرسید اور علی گڑھ تحریک کا پیغام دور دراز تک پہنچے۔ ملٹی ڈسپلنری یونیورسٹی ہونے کے باعث اے ایم یو میں یہ کام آسان ہے۔</div>
<div>پروفیسر منصور نے کہا کہ سرسید اکیڈمی میں ریسرچ کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے۔ انھوں نے کہاکہ شیخ محمد عبداللہ پاپا میاں کو ہندوستان میں خواتین کی جدید تعلیم کا بابائے آدم کہا جاسکتا ہے۔ جسٹس سر شاہ محمد سلیمان اور مولوی چراغ علی، علی گڑھ تحریک کا اہم باب ہیں۔ ان کتابوں کی اشاعت کے لئے اکیڈمی کے ذمہ داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔</div>
<div>اس سے قبل ’مقالات سرسید‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر شافع قدوائی (صدر، شعبہ ترسیل عامہ، اے ایم یو) نے کہا کہ مولانا اسماعیل پانی پتی کی مرتب کردہ ’مقالات سرسید‘ 1955ء میں شائع ہوئی تھی جس میں نقل نویسوں کی غلطیوں کے باعث کئی کمیاں رہ گئی تھیں۔ سرسید اکیڈمی نے یونیورسٹی کے صدی سال میں اس کتاب کے اغلاط کو درست کرکے اسے شائع کیا ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ اس اشاعت کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں کئی مضامین جو سرسید کے نام سے شائع نہیں ہوئے تھے انھیں سرسید کے مضامین میں شامل کردیا گیا۔</div>
<div> مشہور انگریزی انشائیہ نویس جوزف ایڈیسن اور رچرڈ اسٹیل کے انشائیوں کے تراجم جس کی صراحت خود سرسید نے کی  ہے۔ انھیں مولانا اسماعیل پانی پتی نے ’مقالات سرسید‘ میں شامل کرلیا تھا۔ اس خلط مبحث کو سرسید اکیڈمی نے اپنی تازہ اشاعت میں دور کردیا ہے۔ پروفیسر قدوائی نے کہا کہ جسٹس سر شاہ محمد سلیمان کے انتقال پر مشہورنوبل انعام یافتہ سائنسداں سی وی رمن نے 1941 میں تعزیتی تحریر لکھی تھی جو ’نیچر‘ میں شائع ہوئی تھی۔ وہ اے ایم یو کے وی سی رہے ہیں۔ ان پر اور شیخ محمد عبداللہ پایامیاں و مولوی چراغ علی پر مونوگراف کی اشاعت ایک گرانقدر علمی اضافہ ہے۔</div>
<div>پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے ’تفہیم سرسید‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مصنفِ کتاب الطاف احمد اعظمی نے ایک متوازن رویہ اختیار کرتے ہوئے سرسید کے افکار کے ارتقاء کا مطالعہ کیا ہے۔ پروفیسر قدوائی نے کہاکہ سرسید کی مذہبی فکر روایتی فکر سے مختلف ہے۔ انھوں نے تقلید کی مخالفت کی اور حریت فکر کی دعوت دی۔ سرسید نے تعقل پسندی پر زور دیتے ہوئے آزاد تحقیق کی بنیاد ڈالی۔ الطاف احمد اعظمی نے سرسید کا بیجا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس اعتبار سے یہ کتاب سرسید شناسی میں ایک گرانقدر اضافہ ہے جو ہمیں ان کی فکر کے بنیادی نکات کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ پروفیسر قدوائی نے سرسید اکیڈمی کو اس کتاب کی اشاعت کے لئے مبارکباد پیش کی۔</div>
<div></div>
<div>سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلنڈر-1932‘ دوسرا کیلنڈر ہے جسے سرسید اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ اس سے قبل 1911ء کا کیلنڈر شائع کیا جاچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 676 صفحا ت پر مشتمل 1932 کا کیلنڈر اے ایم یو کی تاریخ ایک اہم مأخذ ہے، جس میں اس وقت کے یونیورسٹی کے افسران، اے ایم یو کورٹ کے اراکین کے ناموں کے ساتھ ساتھ اکیڈمک آرڈیننس اور قانونی باڈیز کا ذکر ہے۔ اے ایم یو کی تاریخ جاننے کا یہ ایک اوریجنل مأخذ ہے، اس اعتبار سے یہ ایک اہم دستاویز ہے۔ ڈاکٹر شاہدنے کہاکہ اکیڈمی اس سے قبل اے ایم یو اور سرسید علیہ الرحمہ پر ایس کے بھٹناگر اور جی ایف آئی گراہم کی کتابیں شائع کرچکی ہے۔ ایم اے او کالج کے پرنسپل ماریسن کی کتاب بھی جلد شائع کی جائے گی جو ایم اے او کالج کی تاریخ پر مبنی ہے۔</div>
<div>پرو وائس چانسلر پروفیسر ظہیر الدین نے صدی سال میں اے ایم یو اور سرسید پر بنیادی مأخذ سے تعلق رکھنے والی کتابوں کی اشاعت پر مسرت کا اظہار کیا۔ اس سے قبل سرسید اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے خطبہئ استقبالیہ پیش کیا۔ اکیڈمی کی مختلف النوع سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی سرپرستی میں سرسید اکیڈمی کو تحقیق و مطالعہ کا مرکز بنایا جائے گا اور یہاں پی ایچ ڈی کا سلسلہ شروع ہوگا۔ انھوں نے اے ایم یو کے صدی سال میں سرسید اور علی گڑھ تحریک پر دیگر اداروں کی جانب سے بھی کتابوں کی اشاعت پر زور دیا۔ آخر میں ڈاکٹر محمد شاہد نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔ آن لائن تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر حسین حیدر نے انجام دئے۔</div>
<div></div>
</div>.

Recommended