سری نگر سے دہلی پیدل چل کرآئے محمد عزیر نے منشیات کے استعمال کے خلاف دیا پیغام
کچی شاہراہوں پر دھوپ کی تپش کو برداشت کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کا سفر دشوار کن تھا لیکن پختہ یقین، دل میں جنون اور بلند حوصلوں نے اس مشکل ترین سفر کو بھی آسان کر دیا۔کشمیر کے سری نگر سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے محمد عزیر نے دہلی پہنچ کر اپنا سفر مکمل کر لیا ہے۔عزیر ایک میراتھن رنر ہیں اور کشمیر کے نوجوانوں کے منشیات کی جانب متوجہ ہونے سے سخت نالاں تھے۔
اس لیے انہوں نے عزم کیا کہ وہ سری نگر سے دہلی تک اس پیغام کو اپنی انوکھی پہل کے ذریعہ نوجوانوں تک پہنچا نے کا کام کرینگے۔عزیر نے اپنے سفر کا آغاز 2 اپریل 2021 کو سرینگر سے کیا تھا اور 8 اپریل کی رات میں 900 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے دہلی پہنچے تھے۔ تقریبا 144 گھنٹوں تک پیدل چل کر دہلی تک کا سفر طے کرنے والے محمد عزیر اپنے ساتھ نوجونوں کے لیے ایک پیغام لے کر آئے ہیں۔
محمد عزیر بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے عدالت میں کچھ نوجوان لڑکیوں کو منشیات کے استعمال کی وجہ سے ہتکڑی پہنے دیکھا تو انہیں بہت دکھ ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے عزم کیا کہ وہ اپنے ہنر کے ذریعہ منشیات کے خلاف ایک مہم چلائیں گے۔ اس سمت میں سرینگر سے دہلی تک کا سفر پیدل طے کیا اور مستقبل میں کشمیر سے کنیا کماری تک پیدل سفر کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔عزیر نے بتایا کہ جموں کشمیر پولیس نے ان کی حوصلہ افزائی کی لیکن حکومت کی جانب سے انہیں کوئی مدد نہیں ملی ہے۔
البتہ اس سفر کے دوران ان کا فون چھیننے کی کوشش ضرور کی گئی جس کی انہوں نے رپورٹ بھی درج کرائی۔عزیر بتاتے ہیں کہ جب وہ تھک کر چور ہو جاتے تھے اور اپنے پیروں میں پڑے چھالوں پر نظر ڈالتے تو انہیں ماں یاد آتی تھی۔ وہ فورا ہی زخموں پر مرہم لگاتے اور منزل مقصود کی طرف نکل پڑتے تھے۔
عزیر نے اس سفر کے دوران روزانہ 150 کلومیٹر کی مسافت طے کی۔حالانکہ انہوں نے اس سفر کو 3 دن میں مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن وہ پورا نہیں ہو سکا لیکن انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے اس سفر کو ادھورا نہیں چھوڑا ہے.انہوں نے بتایا کہ نشہ کسی بھی قسم کا ہو وہ انسانی زندگی کو برباد کر دیتا ہے۔اج کشمیر ہی کیا پورا ملک نشہ اور اشیہ کی چپیٹ میں مبتلا ہے۔میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ نوجوان نسل کو منشیات کی لت سے آزادی دلانے میں ہر ممکن مدد کرے۔