Urdu News

پنڈت جس راج کلاسیکی موسیقی کا سورج غروب

ہندوستانی موسیقی کا چمکتا ستارہ تھے پنڈت جس راج

ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا۔ 90سال کی عمر میں امریکا کے نیو جرسی میں انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ کمار گندھرو اور بھیم سین جوشی کے بعد پنڈت جس راج ہی ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے آخری وارث تھے۔ سُر تال اور رَس کے وہ ایک ایسے عاشق تھے کہ انھیں ان کے نام جَس راج کے علاوہ ”رَس راج“ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ انھیں ہندوستانی حکومت کی جانب سے دوسرے سب سے بڑے اعزاز ’پدم وبھوشن‘ سے نوازا گیا تھا۔ پنڈت جس راج نے صرف دس سال کی عمر میں ہی اپنے آپ کو گیت سنگیت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اس طرح انھوں نے تقریباً اسی سال گیت سنگیت کی خدمت کی ہے۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے ہی گزشتہ برس ایک سیارے کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ یہ ایک ایسا اعزاز تھا جسے شاید ہی کبھی بھلایا جا سکے۔
پدم وبھوشن پنڈت جس راج نے زندگی بھر کلاسیکی موسیقی کی خدمت کی۔ فلمی دنیا نے انھیں بار بار پکارا لیکن وہ اپنا دامن بچاتے رہے۔ صرف چار فلموں میں انھوں نے کام کیا۔ 1966میں بنی فلم ”لڑکی سہیادری“ میں انھوں نے پہلی بار اپنی آواز دی تھی۔ پھر 1975میں آئی فلم ”بیربل مائی بردر“ میں انھوں نے اپنی آواز دی۔ اس کے بعد دو اور فلموں ”انیس سو بیس“ اور ”لائف آف پائی“ میں انھوں نے اپنی آواز دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود تمام فلمی دنیا پنڈت جس راج کا بے حد احترام کرتی تھی۔ فلمی دنیا سے وابستہ نہ صرف گیت کار اور سنگیت کار بلکہ اداکار، ہدایت کار اور فلم کار بھی پنڈت جس راج کا بہت احترام کرتے تھے اور انھیں سنگیت کی دنیا کا ایک تابندہ ستارہ تصور کرتے تھے۔ ابھی پنڈت جس راج کے انتقال پر بھارت رتن لتا منگیشکر، اے آر رحمن، وشال ددلانی، انو ملک، انو کپور اور عدنان سامی جیسے فلمی ستاروں نے پنڈت جس راج کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
پنڈت جس راج کا تعلق سنگیت کے میواتی گھرانے سے تھا۔ انھوں نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں گیت سنگیت کا جادو بکھیرا اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا جلوہ دنیا کو دکھایا۔ وہ امریکا اور کناڈا میں سنگیت کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ وہ صبح کی پرارتھنا اوم نمہ شیوائے ہو یا شام کی آرتی پنڈت جس راج نے اپنی آواز میں تقدس پیدا کر دیا تھا۔ پنڈت جس راج کلاسیکی موسیقی سے اپنی وابستگی کا سہرا مشہور گلوکارہ بیگم اختر کے سر باندھتے ہیں۔ وہ 28جنوری 1930کو ہریانہ کے حصار میں پیلی منڈوری نام کے گاؤں میں ایک متوسط براہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے والد پنڈت موتی رام بھی کلاسیکی سنگیت کے ماہر تھے۔ انھیں حیدر آباد دکن کے فرماں روا میر عثمان علی خاں نے اپنا درباری گلوکار بنایا تھا، لیکن عجیب اتفاق کہ جس دن انھیں پروانہ ملا اسی دن ان کا انتقال ہو گیا۔ پنڈت موتی رام کا جب انتقال ہوا تو ان کے بیٹے جس راج کی عمر محض چار سال تھی۔ انھوں نے اپنے بڑے بھائی پنڈت پرتاپ نرائین کے ساتھ سنگیت کی تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی پنڈت پرتاپ نرائین ہیں جن کے بیٹے پنڈت جتن للت فلمی دنیا کے مشہور سنگیت کار ہیں۔ پنڈت جس راج نے اپنی جوانی کے دن حیدر آباد میں گزارے۔ وہ سنگیت کی تعلیم کے لئے گجرات کے سانند بھی جاتے رہتے تھے۔ سنہ 1946میں پنڈت جس راج کلکتہ چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو کے لئے گاتے تھے۔ مشہور فلم کار وی شانتا رام کی بیٹی مدھورا شانتا رام سے پنڈت جس راج نے سنہ 1962 میں شادی کی۔ ان کے دو بچے ہیں۔ بیٹے کا نام سارنگ دیو پنڈت اور بیٹی کا نام درگا جس راج ہے۔ سنہ 1963میں پنڈت جس راج کلکتہ سے ممبئی شفٹ ہو گئے۔ اس کے بعد وہ اکثر کناڈا اور امریکا میں رہے۔
پنڈت جس راج کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو سنگیت کے سروں کی باریکیوں کے لئے جانے جاتے ہیں تو دوسری طرف انھوں نے پبلک کے لئے عام گانے بھی گائے۔ اسی لئے وہ خاص و عام میں مقبول رہے۔ انھیں بھارت سرکار نے پدم شری، پدم بھوشن اور پدم وبھوشن تینوں اعزازات سے نواز تھا۔ انھیں ساہتیہ ناتک ایکڈمی اوارڈ بھی ملا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں ملک میں اور غیر ملکوں میں بھی سیکڑوں اوارڈس اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ ہمارے ملک میں کلاسیکی موسیقی کی جو شاندار روایات رہی ہیں، ان میں بیگم اختر، بڑے غلام علی خاں، استاد فیاض خاں، کمار گندھرو، بھیم سین جوشی کے بعد اب سب سے بڑا نام پنڈت جس راج بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ وزیر اعظم شری نریندر مودی سمیت ملک کے تمام بڑے اور با اثر خواتین و حضرات نے گیت سنگیت کی دنیا کے اس عظیم ہستی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
(مضمون نگار داکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)
.

Recommended