ملک میں جو مسائل خواتین کو درپیش ہیں وہ سب مسائل اقلیتی خواتین کی پریشانی کا سبب بھی ہیں۔ خواتین کے مسائل کی کئی صورتیں ہیں۔ انھیں مختلف سطح پر مختلف مسائل کا سامنا ہے۔جہاں تک اقلیتی خواتین کا تعلق ہے تو ان کے مسائل کی فہرست قدرے طویل ہے۔ گھریلو مسائل بھی کم پیچیدہ اور تکلیف دہ نہیں ہیں۔ بلکہ کئی طرح کے باہری مسائل بھی گھریلو مسائل سے وابستہ ہیں۔ اقلیتی خواتین کے گھریلو مسائل کی رُوداد غم انگیز بھی ہے اور قدیم بھی۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ ان مسائل کی نوعیت اور شدت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ کچھ گھریلو مسائل کا حل تلاش کیا گیا تو کچھ نئے مسائل بھی ابھر کر سامنے آئے۔ جدید ٹیکنالوجی نے گھر کے اندر بھی دخل اندازی کی۔ جدید ٹیکنالوجی نے مختلف سطح پر اقلیتی خواتین کے گھریلو مسائل کو حل کیا۔ لیکن اس ٹیکنالوجی نے کچھ نئی مشکلات بھی پیدا کیں۔
ملک میں خواتین کو درپیش گھریلو مسائل میں سماجی نوعیت کی مسائل زیادہ ہیں۔ حکومت کی سطح پہ اقلیتی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے جو اسکیم بنائے گئے ان کا بھی خاطر خواہ فائدہ اقلیتی خواتین کو نہیں مل سکا۔ اس کی وجہ بھی سماجی بندھن کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ سماج کے بہت سے فرسودہ رسم و رواج آج بھی زندہ ہیں۔ اقلیتی خواتین کی زندگی پر ان فرسودہ رسومیات کا گہرا اثر ہے۔ بے جا رسومیات کی قید وبند نے سیاسی، سماجی اور معاشی پس منظر کے مطابق خواتین کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ الگ الگ طبقاتی پس منظر سے آنے والی خواتین کے گھریلو مسائل بھی الگ الگ نوعیت کے ہیں۔ الگ الگ علاقوں اور خِطّوں کے مسائل میں بھی خاصا فرق نظر آتا ہے۔
بیٹی کو ”پرایا دھن“ سمجھنے کی جو صدیوں پرانی روایت چلی آرہی ہے اس نے بھی اقلیتی خواتین کی زندگی میں زہر گھولنے کا کام کیا۔ ”پرایا دھن“ کی اس سوچ نے کئی طرح کے گھریلو مسائل کو جنم دیا۔ جب والدین ہی اپنی اولادوں کو بیٹا اور بیٹی کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں تو وہیں سے گھریلو مسائل کا آغاز ہو تا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے ہندوستانی سماج میں بیٹا اور بیٹی کو لے کر جو سوچ تھی، اس سوچ میں کافی حد تک مثبت تبدیلی آئی ہے۔ لیکن آج بھی بیٹیوں کے تعلق سے منفی سوچ کو سو فیصد ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ والدین کی اس منفی سوچ سے بیٹیوں کے ذہن میں ایک مشکوک سماج کا تصور اُبھرتا ہے۔ آج کی یہی بیٹیاں کل کی اقلیتی خواتین ہیں جن کے مسائل روز بروز نئی شکلیں بدل رہے ہیں۔
ہندوستان میں اقلیتی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی کئی رضاکار تنظیموں کی رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تعلیم کا فقدان آج بھی اقلیتی خواتین کے لئے سب سے بڑا گھریلو مسئلہ ہے۔ اقلیتی خواتین میں تعلیم کی اس کمی کو Mother of all problems یعنی تمام مسائل کی ماں بھی قرار دیا گیا ہے۔ تعلیم کی کمی کے سبب دوسرے تمام مسائل جنم لیتے ہیں۔ پچاس فیصد سے زیادہ اقلیتی خواتین کو نہ اپنے حقوق کی جانکاری ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کی۔ تعلیم سے محروم مائیں اکثر اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے تعلق سے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی دشمن ہیں۔ لیکن ان کی فکر بیٹیوں کی شادی ہے تعلیم نہیں۔ اس گھریلو مسئلے میں کئی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ کئی مرتبہ والدین اپنی بیٹیوں کو محض اس لئے اسکول یا کالج بھیجنے کو راضی ہو جاتے ہیں کہ ذرا کچھ پڑھ لکھ لینے سے ان کی بیٹی کی شادی آسانی سے ہو جائے گی۔ اس ذہنیت کے ساتھ بیٹیاں جب تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں تو ظاہر سی بات ہے ان کی کارکردگی بہت اچھی نہیں ہوگی۔ ان کے دل و دماغ پر ہمیشہ ایک انجانہ خوف طاری رہتا ہے کہ نہ جانے کس موڑ پر ان کا تعلیمی سلسلہ ختم ہو جائے گا۔
جب بھی اقلیتی خواتین میں تعلیم کے فقدان کی بات آتی ہے تو ایک وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اقلیتی خواتین میں جین سماج کی خواتین تعلیم کے میدان میں سب سے آگے ہیں۔ 2011 کی مردُم شماری کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جین سماج میں خواندگی کی شرح 86فیصد تھی۔ جین سماج کی خواتین معاشی اعتبار سے بھی دوسری اقلیتی خواتین سے کافی بہتر حالت میں ہیں۔ ماہرین سماجیات کو اس تعلق سے بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اقلیتی خواتین میں بھی ایک طبقہ ہے جو تعلیمی اور معاشی میدان میں بہت آگے ہے۔ ان خواتین کے آگے بڑھنے میں جو اسباب معاون و مددگار تھے وہی اسباب دوسری اقلیتی خواتین کے لئے کیوں کار آمد ثابت نہیں ہو رہے ہیں؟ اس پہلو سے سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
اقلیتی خواتین کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے گزشتہ برس ایک تنظیم نے حیدرآباد، کولکاتہ، ممبئی، پٹنہ، رام پور، مراد آباد اور بھوپال میں ایک سروے کرایا۔ شہری علاقوں میں اقلیتی خواتین کی تعلیمی کارکردگی قدرے بہتر تھی جبکہ گاؤں، دیہات اور شہروں کے پسماندہ محلوں میں اقلیتی خواتین کی تعلیمی صورت حال اس قدر خوفناک تھی کہ ماہرین بھی حیران تھے۔ ان پسماندہ علاقوں میں 54 فیصد اقلیتی خواتین پوری طرح نا خواندہ تھیں۔ یعنی وہ کسی بھی زبان میں اپنا نام تک نہیں لکھ سکتی ہیں۔ یہ صورت حال یقینا ڈرانے والی ہے۔ اس سروے کی بنیاد پر سماجیات کے ماہرین نے ایک تفصیلی رپورٹ تیار کیا، جسے ہندی، اردو اور انگریزی میں شائع کیا گیا۔ اس رپورٹ میں دیگر باتوں کے ساتھ اس بات پہ بھی زور دیا گیا کہ ہم مرکز میں بیٹھ کر تمام اقلیتی خواتین کے لئے یکساں اسکیم نہیں بنا سکتے ہیں۔ بلکہ زمینی سطح پر ان کی موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھ کے ہمیں اپنی پلاننگ کرنی ہوگی۔ تبھی اقلیتی خواتین کے گھریلو مسائل میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔
ایم جی آر کی رپورٹ کے مطابق اقلیتی خواتین میں ناخواندگی کی وجہ سے صحت عامہ کی محدود جانکاری ہے۔ کچھ غربت اور افلاس کے سبب اور کچھ جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی خواتین مختلف جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں آج بھی اقلیتی خواتین مجموعہ امراض کی شکل میں زندگی کو گھسیٹ رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے انھیں جو سہولتیں مہیا کرائی گئی ہیں وہ ان سے ذرا کم ہی واقف ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے خاص اقلیتی طبقے کی خواتین کے لئے کئی منصوبے تیار کئے اور انھیں زمینی سطح پر لاگو بھی کیا۔ لیکن ان منصوبوں سے واقفیت نہ ہونے کے سبب اقلیتی خواتین آج بھی بھرپور فائدہ نہیں اُٹھا پا رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں حفظانِ صحت کی صورت حال زیادہ خوف ناک ہے۔ ان خواتین میں پچاس فیصد سے زیادہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا وقت سے علاج ہوتا تو معمولی دواؤں سے علاج ممکن تھا۔ لیکن معاشرے میں کھلا پن نہ ہونے کے سبب اقلیتی خواتین اپنی بیماری کے بارے میں کھل کے بات نہیں کرتی ہیں۔ ان کی بیماری جب ناقابل علاج حد تک پہنچ جاتی ہے تب اہل خانہ کو معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایسی صورت میں معمولی بیماریاں بھی انھیں موت کے منہہ میں ڈھکیل دیتی ہیں۔
تعلیم کی کمی اور کچھ صدیوں سے چلی آ رہی روایت کے نام پر آج بھی کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کا رواج باقی ہے۔ اگرچہ حکومت نے ایک قانون بنا کر 18 برس سے کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ لیکن دیہی سماج میں آج بھی اقلیتی خواتین کی شادی بہت کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔ کم عمری کی شادیاں اپنے آپ میں خود کئی گھریلو مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ جو عمر کھیلنے اور پڑھنے لکھنے کی ہوتی ہے اس عمر میں جب گھر سنبھالنے کی ذمہ داری آ پڑے تو یقینا ذہنی و جسمانی نشو نما پر برا اثر پڑتا ہے۔ اور کئی طرح کی گھریلو پریشانیاں جنم لیتی ہیں۔
معاشیات کا خواتین کے ہاتھ میں نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گھر کے اندر بھی خواتین کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کسی اور پہ منحصر ہے۔ نہ جانے کیوں اور کیسے سماج میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ اقتصادی معاملات کا تعلق خواتین سے نہیں ہے۔ اقلیتی خواتین بھی اس کی زد میں رہی ہیں۔ معاشی بدحالی کی شکار وہ خواتین بھی رہی ہیں جن کے اہل خانہ صاحب ثروت ہیں۔ مختلف محاذ پر آواز بلند کرنے کے بعد بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں کچھ تبدیلی آئی۔ معاشی خود مختاری کی طرف بڑھنے والے اس قدم کو اور تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی بد حالی اقلیتی خواتین کی گھریلو زندگی میں زہر گھولنے کا کام کرتی ہے۔ اس لئے معاشی اور اقتصادی خود مختاری سے بہت سے گھریلو مسائل خود بہ خود دور ہو جائیں گے۔ جب ہم معاشی خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو اسے بھی مختلف سطح پر دیکھنے اور برتنے کی ضرورت ہے۔ ممبئی یا دہلی میں ملازمت کرنے والی اقلیتی خواتین کے گھر میں بھی اقتصادی مسائل ہیں لیکن وہ آسام کے چائے باغانوں میں کام کرنے والی اقلیتی خواتین کے گھریلو مسائل سے یکسر الگ ہیں۔ ان کی نوعیت الگ ہے اور ان کی شدت بھی الگ ہے۔ شمال مشرق میں بانس کی ٹوکری بنا کر فروخت کرنے والی اقلیتی خواتین کے گھریلو مسائل بالکل الگ طرح کے ہیں۔ جن قبائل میں بانس کی ٹوکری بنانے کا کام ہوتا ہے وہاں بیٹی کی پیدائش کو زحمت نہیں رحمت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ بیٹی بہت کم عمری میں بانس کی ٹوکری بنانے کا کام سیکھ کر اپنی ماں کی مدد کرنے لگتی ہے۔ جبکہ بیٹے اس کام میں مدد نہیں کرتے ہیں۔ اس اقلیتی سماج میں بیٹی کی شادی کم عمری میں نہیں کی جاتی ہے، لیکن اس وجہ بیٹی کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ وہ بانس کی ٹوکری ہے جسے وہ تیار کرتی ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی ملک بھر میں اقلیتی خواتین کے گھریلو مسائل ان کی زندگی میں زہر گھولنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس لئے اب ہمیں اپنی ساری دانائی و بینائی کا استعمال کرتے ہوئے، اقلیتی خواتین کے گھریلو مسائل کے مکمل خاتمے کی طرف قدم تیزی سے بڑھانا چاہئے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)
.