ملک کی قدرتی وراثت کے تحفظ کے تئیں اپنے عہد کے ساتھ ریونیو انٹلی جنس کی ڈائریکٹوریٹ ( ڈی آر آئی ) نے لال صندل کی 14.63 ایم ٹی کی ایک کھیپ برآمد کی ہے ، جس کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں 11.70 کروڑ روپئے ہے ۔ یہ صندل سابر متی کے آئی سی ڈی کے ایک کنسائنمنٹ سے برآمد کی گئی ہے ، جسے یو اے ای کے شارجہ کو برآمد کیا جانا تھا ۔
ڈی آر آئی کو یہ خفیہ اطلاع ملی تھی کہ لال صندل کی لکڑی برآمدات کے ایک کنسائنمنٹ میں چھپا کر بھیجی جا رہی ہے ، جسے اسورٹیڈ ٹائلٹریز کے نام سے ملک سے باہر اسمگل کیا جا رہا تھا ۔ اس مناسبت سے ’ آپریشن رَکت چندن ‘ شروع کیا گیا اور مشتبہ بر آمداتی کنسائنمنٹ پر قریب سے نگرانی کی گئی ۔
مذکورہ خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے مشتبہ کنٹینر کو ’’ کنٹینر اسکیننگ ڈیوائس ‘‘ کے ذریعے اسکین کیا گیا اور اس بات کی تصدیق کی گئی کہ اس میں لکڑی کے لٹھوں کی شکل کی کچھ اشیاء موجود ہیں اور اسورٹیڈ ٹوائلٹریز موجود نہیں ہے ، جن کا ذکر کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد ڈی آر آئی نے کنٹینر کی جانچ کی اور یہ پایا کہ یہ کنٹینر لال رنگ کی لکڑیوں کے لٹھوں سے بھرا ہوا ہے ، جو لال صندل کی لکڑی کے ہیں ۔ ان کو نکالنے پر کل 14.63 ایم ٹی کے صندل کی لکڑی کے لٹھے دریافت کئے گئے اور اس کے علاوہ ، کوئی دوسری شے برآمد نہیں کی گئی ۔ رینج فاریسٹ افسران نے ، اِس بات کی تصدیق کی کہ یہ لکڑی لال صندل کی ہے ، جسے بر آمد کرنے پر پابندی عائد ہے ۔ اس لئے ، اس لکڑی کو کسٹمز ایکٹ 1962 کے ضابطوں کے تحت ضبط کر لیا گیا ہے اور اس کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں ۔
لال صندل ایک ایسی نبابات ہے ، جو آندھرا پردیش کے مشرقی گھاٹ کے جنگلات میں پائی جاتی ہے اور یہ کمیاب اشیاء کی فہرست میں موجود ہے اور یہ آئی یو سی این کی سرخ فہرست میں بھی شامل ہے۔ یہ لکڑی ایشیا ، خاص طور پر چین میں کاس میٹک اور دواؤں میں استعمال کے لئے بہت مقبول ہے ۔ بھارت میں لال صندل کی بر آمدات فارن ٹریڈ پالیسی کے مطابق ممنوع ہے۔
ڈی آر آئی ، اُن لوگوں کے خلاف مسلسل کارروائی کرنے اور چھاپہ مارنے کے لئے عہد بستہ ہے ، جو بھارت کے اقتصادی محاذ سے سمجھوتہ کرنے اور اس کی قدرتی وراثت میں خرد برد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔