Urdu News

مدرسوں میں  اصلاحات اور جدید کاری  کی  اشدضرورت

مدرسوں میں  اصلاحات اور جدید کاری  کی  اشدضرورت

<ul>
<li style="text-align: center;"><strong>مدرسوں میں  اصلاحات اور جدید کاری  کی  اشدضرورت </strong></li>
</ul>
<p style="text-align: right;">آشیرہ بی بی ، جو مغربی بنگال کی رہائشی ہیں ، معاش کے حصول کی تلاش میں ریاست سے باہر چلی گئیں۔ لیکن اس کے تین بچے بنگال کے ضلع نادیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہ رہے ہیں۔ وہ سب نقل مکانی کے لیے تیار نہیں ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">ایک خاتون نے فخریہ لہجے میں کہا کہ ’’ میرے بچے اسکول میں پڑھتے ہیں جہاں وہ قرآن کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔قرآن کی تعلیم ضروری ہے  اور میں اپنے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے بچوں کو مقدس کتاب یعنی قرآن کریم کی تعلیم نہیں دے پا رہی ہوں۔ ‘‘</p>
<p style="text-align: right;">ایک خاتون بی بی نامی ہیں ۔ ان کے بچے قریبی مدرسے میں جاتے ہیں۔ایک  35 سالہ عمر نے کہا کہ وہ انھیں کسی ’مرکزی اداروں ‘ کے باقاعدہ اسکول میں داخل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسکول میں باقاعدہ اسلام اور قرآن کی بنیادی باتوں پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">مذکورہ چند حوالوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی بنگال کے مشرقی علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے مسلم طبقے خاص طور پر غریب طبقوں کی ذہنیت کیا ہے؟ مدرسے اور اسکولی تعلیم کو کس طرح الگ الگ سمجھتے ہیں؟ ان سب کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ایک طرح سے ذہنی پژمردگی بھی  کہہ سکتے ہیں کہ غریب اور متوسط گھرانے کے لوگ اپنے بچوں کو مرکزی اداروں یعنی ماڈرن ایجوکیشن کی طرف بھیجنا بہت پسند نہیں کرتے ہیں۔ مگر واضح ہوکہ یہ مسائل اعلیٰ طبقوں میں نہیں ہے۔ اعلیٰ طبقوں کے لوگ اپنے بچوں کو ماڈرن ایجوکیشن کی طرف بھیجتے ہیں تاہم غریب اور متوسط طبقوں میں یہ رجحان کم ہے۔</p>
<p style="text-align: right;"> مختلف اندازوں  کے مطابق ، ملک بھر میں 55000 سے زائد مدرسے منسلک ہیں ، جن میں 10،000 سے زیادہ مغربی بنگال میں ہیں۔ مدارس میں قرآن ، احادیث اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات  کے علاوہ بنیادی طور پر اسلام اور قرآن کے اصول سکھائے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں باقاعدگی سے اردو اور عربی بھی پڑھائی  جاتی ہے۔ اگرچہ ان میں سے بہت سے دوسرے باقاعدہ مضامین جیسے سائنس اور ریاضی بھی شامل ہیں ، لیکن وہ کسی بھی معیاری نصاب کی پیروی نہیں کرتے ہیں۔ ان متوازی تعلیمی اداروں کی بنیاد ی مقصد اسلام  کی  تعلیم ہے ، جو طلباکی ملازمت کے امکانات کی راہ میں ایک طرح سے روکاوٹ ہے۔ اگرچہ اب متعدد مدرسے اپنے متعلقہ ریاستی بورڈ سے  منسلک ہونے کی وجہ سے ماڈرن نصاب کی پیروی کرنے لگے ہیں تاہم یہ تشویش اب بھی برقرار ہے کیوں کہ ان میں سے بیشتر مضامین اٹھارہویں اور انیسویں صدی  یا اس سے قبل کی تدریسی تکنیک پر مشتمل  ہے۔ ہندستان میں زیادہ تر مدارس بغیر کسی معیاری نصاب کے عوامی چندوں پر چلتے رہتے ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">مدارس سے فارغ ہونے کے بعد ، مرکزی دھارے میں شامل ہونا آسان نہیں ہے کیوں کہ درس و تدریس کا  کہیں بھی یکساں انداز نہیں ہے۔ دہلی کے ایک مشہور کالج کے پرنسپل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پریہ  بتایا کہ ہمارے مدرسوں سے پاس ہونے والے طلبا ہمارے کالج میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے درخواست نہیں دیتے تھے۔ پرنسپل نے مزید کہا کہ مدرسہ تعلیم  میں توازن برقرار ہے  لیکن بنیادی طور پر لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ  یہ  لاکھوں مسلمان بچوں کے لیے ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">2020 میں ، تقریبا 70،000 طلبا نے مغربی بنگال میں پھیلے ہوئے مختلف مدارس سے اسکول کے امتحانات  میں شرکت کی۔ ریاست کے بہت سے مدارس مغربی بنگال مدرسہ بورڈ سے وابستہ ہیں لیکن مدرسے کی  بنیادی تعلیم اسلام اور اسلام کے ملحقہ امور ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">ایک آزاد آن لائن نیوز پلیٹ فارم مسلم آئینہ کے مطابق ’’ان طلبا کے لیے جو مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں ،ان سب کے سامنے بہت سارے مضامین کو لے کر مسئلہ درپیش آجاتا ہے کیوں کہ سینئر سیکنڈری مضامین کی تیاری ایک مشکل مسئلہ بن جاتا ہے۔ زیادہ تر طلباسیکنڈری اور سنیئر سیکنڈری  امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں ، جو طلبا کامیاب ہوجاتے ہیں  ، انہیں اعلی ٰتعلیم کے حصول میں بہت دشواری ہوتی ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">تاہم ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی سمیت کچھ مسلم اکثریتی یونیورسٹیاں ، مدرسوں سے پاس ہونے والے طلبا کو اپنے یہاں مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہونے کی اجازت دے رکھی  ہیں تاہم یہ تعدادبہت  محدود ہے۔</p>
<p style="text-align: right;"><strong>مدرسوں میں  اصلاحات اور جدید کاری  کی  اشدضرورت :</strong></p>
<p style="text-align: right;">مدارس میں تعلیمی نظام میں اصطلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد یہ ہے کہ طلبا کو لازمی  طور پر قومی دھارے کی تعلیم سے ہم آہنگ کریں ۔ مدارس میں زیر تعلیم طلبا انجینئر اور ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتے ہوں گے ، چناں چہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس سے نکلنے والے طلبا ماڈرن ایجوکیشن کی طرف توجہ دیں ، یا مدارس کے نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے انہیں ماڈرن ایجوکیشن کی طرف آگے بڑھائیں تاکہ وہ ڈاکٹر، انجینئر بن کر ابھر سکیں ایسا نہ ہوکہ وہ سب کے سب  صرف  مولویوں اورامام ہی تک اپنی زندگی محدود کر لیں۔</p>
<p style="text-align: right;">راشٹریہ مسلم منچ کے محمد مظہر خان نے انڈیا  نیرٹیو  ڈاٹ کام کو بتایاکہ ’’مدارس کی تعلیم میں  اصلاحات  ہندستان میں مسلم تعلیم ، مسلم قیادت کی نوعیت  اور معاشرتی ایجنڈوں کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ہندستانی مدارس کا اثر پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپا ل میں ہے، کیوں کہ ان ممالک کے مذہبی رہنما ہندستانی مدارس سے منسلک ہیں۔ علمائے کرام ہندستانی مسلمانوں پر ایک خاص اثر رکھتے ہیں۔ اگر مدارس میں اصطلاحات ہوتی ہے تو یہ مسلم معاشرے کے ساتھ سب کے لیے بہت اہم فیصلہ ہوگا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلم مرکزی دھارے سے وابستہ ہوجائیں گے اور ان کے سامنے روزگار کے مواقع پید ا ہونے لگیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگ مدارس میں اصطلاحات کے لیے تحریک چلائیں تاکہ مدارس کے طلبا بھی مرکزی دھارے سے وابستہ ہوسکیں۔‘‘</p>
<p style="text-align: right;">مصنف اور ماہر تعلیم یوگیندر سنکند نے اپنے ایک مضمون میں  لکھا تھا کہ پچھلے سال ، این ڈی اے حکومت ، جمیعت علمائے ہند  کے ساتھ ساتھ  جو ہندستان میں سب سے زیادہ بااثر مذہبی ادارے ہیں ، نے مدرسوں میں جدید تعلیم کو متعارف کرانے کے لیے ایک روڈ میپ بنانے کی ضرورت پر زور دیاتھا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ  جب مرکز نے مدرسوں کو جدید کاری کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔2009 میں  کانگریس کے رہنما اور سابق ​​انسانی وسائل کے وزیر کپل سبل نے مدرسہ بورڈ بل کی تجویز پیش کی تھی ، اس تجویز میں مدارس کی تعلیم کی جامعیت کو یقینی بنانے اور تعلیمی تکنیک اور نصاب کو جدید بنانا تھا۔ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ مدرسہ کی ڈگری کو اہمیت دی جائے  اور اس کو سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کے مساوی بنایا جائے۔</p>
<p style="text-align: right;">انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جب مسلم نوجوان مدرسوں  سے باہر چلے جائیں تو انہیں ملازمت کے مواقع میسر آئیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان میں مہارت ہے اور وہ اس قسم کی تعلیم سے آراستہ ہیں جس کی وجہ سے وہ قومی دھارے کا حصہ بن سکتے ہیں۔لیکن کپل سبل کی  کوششوں کا کوئی  نتیجہ نہیں نکلابلکہ  سبل کو ہر طرف  مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔</p>
<p style="text-align: right;"><strong>مدارس میں غیر مسلم بچوں کی تعداد میں اضافہ:</strong></p>
<p style="text-align: right;">مدارس غیر مسلم طلبا کے لیے بھی کھلے ہیں۔ مدرسوں میں جانے والے طلبا کی کافی تعداد غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ وجوہات بہت ساری ہیں۔ پہلے یہ مدرسے مفت تعلیم اور کھانا مہیا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگ رہائش کی سہولیات بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک مبصر نے بتایا کہ ’’ متعدد بچے غریب  اورغربت کا سامنا کرتے ہوئے مدرسوں میں جاتے ہیں تاکہ وہ مفت کھانے پینے کے ساتھ  کچھ سیکھ سکیں گے۔‘‘</p>
<p style="text-align: right;">دوسرا بہت سے دور دراز اضلاع میں باقاعدہ اسکولوں کی عدم دستیابی نے دوسری جماعتوں کے بچوں کو بھی مدارس جانے پر مجبور کردیاہے تاہم  ایک مبصر نے یہ بھی نوٹ کیا کہ بہت سارے مدارس غیر مسلم طلبا کے لیے کھلے ہیں ، کیوں کہ یہ ان کے مذہب کو فروغ دینے اور اس کی وسعت کو بڑھانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">جماعت اسلامی علمائے ہند کے قومی صدر مولانا صہیب قاسمی نے کہا .کہ ’’مدارس میں پچھلے 70 سالوں سے تبدیل نہیں آئی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مدرسوں کی اصلاح اور جدیدکاری کی جائے. اور سائنس ، ریاضی اور کمپیوٹر سائنس جیسے باقاعدہ مضامین کی تعلیم دی جائے ۔ اور اس بات کو یقینی بنائے کہ  یہاں سے پاس ہونے والے طلبا آسانی  سے مرکزی دھارے میں شامل ہو کر  دنیا کے سامنے خود کو بہتر ثابت کرسکے۔‘‘</p>
<p style="text-align: right;"><strong>RSS</strong><strong> کے تعلیمی ادارے اور مرکزی اداروں میں مماثلت</strong></p>
<p style="text-align: right;">آر ایس ایس نے پورے ملک میں  اسکولوں اورتعلیمی  اداروں کا جال بچھا رکھا ہے۔ آر ایس ایس  ’’وشیشو مندراور ودیا بھارتی‘‘ اسکول   چلاتاہے۔ جب کہ ان اسکولوں ، جس میں  15،000 سے زیادہ  طلبا و طالبات ہیں۔ان  طلبا میں قوم پرستی کے ایک مضبوط احساس کو فروغ دینا ہے۔ ، وہ سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) یا ریاستی تعلیمی بورڈ سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر اساتذہ کو معیاری اہلیت کے مطابق بھرتی کیا جاتا ہے۔ چوں کہ یہ اسکول مرکزی دھارے کے نصاب کی پیروی کرتے ہیں ۔، لہذا طلبا کو اعلی ٰتعلیمی نظام کے ساتھ خود کو ضم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">طلباکو ہندو مذہب کے اصول وضوابط کی تعلیم دی جاتی ہے  لیکن نصاب اور درس تدریس مذہب پر مبنی نہیں ہے۔ ہندستان میں عیسائی مشنری اسکولوں کی تصویر بھی ایسی ہی ہے۔ان اسکولوں نے بھی دوسرے مسلک، مذہب کے طلبا کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">2016 میں ، وزیر اعظم نریندر مودی نے ان اسکولوں کو ٹیکنالوجی کو اپنانے اور اہرام کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت پر زور دیاتھا۔ ان اسکولوں سے تعلق رکھنے والے متعدد طلبا نے بورڈ کے امتحانات میں سرفہرست نام درج کرایا  ہے۔ ایک تجزیہ کار نے کہا کہ ’’وہ آسانی سے مرکزی دھارے میں شامل تعلیمی نظام میں ضم ہوجاتے ہیں ، کیوں کہ یہ اسکول بھی اس طرز کی پیروی کرتے ہیں جو دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح ہے ، اس لیے زیادہ توجہ مذہب پر نہیں دی جارہی ہے۔‘‘</p>
<p style="text-align: right;">یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ایک معیاری نصاب پر عمل کریں تاکہ ان کے لیےملازمت کے مواقع بھی کھلیں۔ صرف مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ہی مستقل ملازمتیں تلاش کرنے اور قومی دھارے کے سماجی و معاشی نظام میں ضم ہونے  اہل ہیں۔ مرکزی سرکار کو بھی اختلاف رائے کی آزادی کے ساتھ مدارس کی جدید کاری پر مسلسل غور کرنا چاہیے تاکہ مدارس کے طلبا بھی مرکزی دھارے سے منسلک ہو کر ملازمت اور دیگر میدان میں خود کو بہتر ثابت کر سکے۔</p>.

Recommended